سال2022 :تیل کی قیمتوں میں کس قدراضافہ ہونے والا ہے؟ نامور کالم نگار نے تمام دلائل دیتے ہوئے پاکستانیوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی
سال2022 :تیل کی قیمتوں میں کس قدراضافہ ہونے والا ہے؟ نامور کالم نگار نے تمام دلائل دیتے ہوئے پاکستانیوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی
لاہور(ویب ڈیسک)منشور ہو یا وعدہ‘ کسی بھی انسان کی پہچان کے ساتھ منسلک ہو کر رہ جاتا ہے۔ اگر آپ اپنے وعدے پر قائم رہتے ہیں تو یہ آپ پر بھروسے اور اعتماد کی مہر ثبت کر دیتا ہے لیکن اگر آپ اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتے تو مستقبل میں آپ پر لوگوں کا اعتماد کمزور ہو سکتا ہے۔
نامور کالم نگار منیر احمد بلوچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔!!! ہاں! یہ علیحدہ بات ہے کہ آپ وہ عوامل بتائیں اور لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کریں کہ آپ اپنا وعدہ کیوں پورا نہیں کر سکے تھے‘ اس کیلئے کتنی کوشش کی گئی اور ناکامی کی وجہ کیا بنی۔ وعدہ کسی ایک انسان کا ہو سکتا ہے لیکن منشور کسی تنظیم یا جماعت کی جانب سے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ امر کوئی ڈھکا چھپا نہیں کہ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتوں کے منشور ایک رسم پوری کرنے کیلئے عوام کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح ریاست اور ملک کا آئین اور قانون ہوتا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ ابھی تک کوئی ایسی مثال نہیں مل سکی کہ آئین اور قانون پر پورا پورا عمل کیا جاتا ہو‘ کہیں نہ کہیں کوئی جھول رکھ لیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے بیشتر سیاسی رہنمائوں نے خود بھی اپنے منشور کی ایک دو سطروں کے علاوہ تیسری لائن پڑھنے کی کوشش نہیں کی ہو گی اور نہ ہی ووٹرز نے کبھی یہ دیکھنے کی کوشش کی ہو گی کہ ان کا ووٹ حاصل کرنے والی جماعت کا منشور کیا تھا اور اس نے اس کی کتنی شقوں پر عمل کیا ہے۔ آپ سروے کر کے دیکھ لیجیے‘ 98 فیصد ووٹرز نے کبھی کسی سیاسی جماعت کا منشور دیکھا اور نہ ہی کبھی پڑھا ہو گا۔ہمارے جیسے ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے ملکوں میں منشور پر عمل درآمد کا پیمانہ باورچی خانوں اور یوٹیلٹی بلز تک محدود ہوتا ہے۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ شوہر کی خوشنودی اور محبت اس کے
معدے سے گزرتی ہے‘ اسی طرح پاکستان میں سیاسی مقبولیت اور ووٹرز کی محبت حاصل کرنے کا بھی یہی ایک کارآمد طریقہ ہے۔ جس نے بھی اس نسخے پر عمل کیا وہ کامران سمجھا گیا اور جس نے باورچی خانے کے ساتھ گھر کے باقی حصوں کو سدھارنے اور برسہا برس سے اس گھر پر لادے گئے قرضوں کو اتارنے کی کوشش کی‘ وہ مارکھا گیا۔ آج کل یہی کچھ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ عوام کے لیے مایوس کن خبر یہ ہے کہ ابھی مہنگائی کم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے اور مہنگائی کا گراف ابھی مزید بلند ہو گا کیونکہ یہ سطریں لکھتے ہوئے معلوم پڑا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل نوے روپے فی بیرل کا ہندسہ بھی کراس کر گیا ہے۔ اس وقت تیل گزشتہ سات‘ آٹھ سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔ دوسری جانب ملائیشیا سے آنے والا پام آئل‘ جس سے گھی اور خوردنی تیل تیار ہوتا ہے‘ بین الاقوامی مارکیٹ میں ایک نئی چھلانگ لگا کر ریکارڈ قائم کر چکا ہے۔ موجودہ حکومت کی بدقسمتی کہہ لیجئے کہ یہ تمام مشکلات اور مہنگائی‘ کورونا کی عالمی وبا کے ساتھ اس حکومت کو کھا گئیں۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور صرف پاکستان ہی نہیں‘ پوری دنیا بدترین مہنگائی کا سامنا کر رہی ہے لیکن اگر پاکستانی عوام کو گڈ گورننس کا آسرا مل جاتا تو شاید مہنگائی سے تحریک انصاف کی مقبولیت کو لگنے والاگھن زیادہ نمایاں نہ ہوتا لیکن پنجاب اور کے پی میں غلط چوائسز نے پی ٹی آئی حکومت بالخصوص
وزیراعظم عمران خان کو ناک آئوٹ کرانے میں اہم کردار اد اکیا ہے۔سرکاری اداروں میں ہر سائل سے رشوت اب اس کا گریبان پکڑ کر پوری دھونس سے مانگی جا رہی ہے ۔ ایک جانب مہنگائی اور بدترین گورننس اور دوسری جانب مردم شناسی کی کمزوری۔ اب تک کے دورِ حکومت میں وزیراعظم صاحب اپنے سب سے بااعتماد ساتھیوں اور ہمدردوں کو چھوڑ کر اجنبی چہروں میں گھرے ہوئے ہیں۔ جس کا جب جی چاہتا ہے یا جب موقع ملتا ہے‘ خوشامد سے ادھر کی ادھر کر جاتا ہے۔ حکومت انہی خوشامدیوں کو بااعتماد اور مقدم سمجھ کر بنا دیکھے بھالے ایسی ایسی اہم ترین ذمہ داریاں سفارشیوں کو سونپے جا رہی ہے کہ دیکھنے اور سننے والے سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں۔ یہ خوبی یا خامی موجودہ دورِ حکومت تک محدود نہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹو سے بے نظیر بھٹو تک اور آصف علی زرداری سے میاں نواز شریف تک‘ ہر حکمران کا اصول اور طریقہ کار کہہ لیں یا ان کی سوچ اور فطرت سمجھ لیجئے کہ وہ ان لوگوں کی جانب دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے جو ان کے ساتھ اُس وقت سے کھڑے ہونے کی غلطی کر بیٹھے تھے جب لوگ ڈر اور خوف یا بے فائدہ سمجھ کر ان سے ہاتھ ملانا بھی گھاٹے کا سودا سمجھتے تھے۔ایوانِ وزیر اعظم سے ایوانِ صدر تک‘ تمام اقتدار کے ایوانوں میں راقم نے چونکہ ایک عرصہ گزارا ہے‘ اس لیے بخوبی جانتا ہے کہ اقتدار اور حکمرانوں کے قریب تعینات اہلکاروں اور افسران کو ان راہداریوں میں چلتے پھرتے کس قدر
محتاط رہنا پڑتا ہے لیکن پھر بھی وہ ہر کونے میں چھپی زہر بھری سازشوں اور حسد کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کمالِ فن دیکھئے کہ ایسے سازشی عناصر کا شکار وہی لوگ بنتے چلے آ رہے ہیں جو صاحبِ اقتدارکے ساتھ انتہائی مخلص ہو کر‘ محنت اور ایمانداری سے اپنے فرائض منصبی انجام دیتے ہیں۔ ایسے ایماندار اور مخلص لوگوں کی خرابی یہ ہوتی ہے کہ وہ خوشامد کا فن نہیں جانتے، نہ وہ بڑھ چڑھ کر باتیں کرتے ہیں، وہ اپنے کسی بھی ساتھی کی پیٹھ پیچھے برائیاں نہیں کرتے اور رزقِ حلال پر پوری طرح کار بند رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ خواہ مخواہ کا شور شرابہ‘ شکوہ شکایت یا دکھاوا کرنے کے بجائے پوری لگن سے صاحبِ اقتدار سے مکمل وفاداری نبھاتے ہوئے اپنے فرائض اَن تھک محنت سے سرانجام دیتے ہیں، لیکن اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ لوگ اپنی محنت‘ ایمانداری اور وفاداری کا صلہ پانے کے بجائے حاسدین اور خوشامدیوں کی سرگوشیوں میں کی جانے والی غیبتوں کا شکار ہو کر اس طرح نکال باہر کیے جاتے ہیں کہ انہیں اپنی وفاداری اور خلوص کی درگت بنتے دیکھ کر ان اوصاف سے ہی وحشت ہونے لگتی ہے۔جعلی اور بوگس ہائوسنگ سوسائٹیوں کے نام پر پنجاب بھر میں اپنی عمر بھر کی جمع پونجیاں لٹانے والے ہزاروں افراد بشمول اوور سیز پاکستانی سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بعد سابق ڈی جی نیب پنجاب کیلئے ہمیشہ اپنے ہاتھ پھیلائے رب کریم کے حضور دعائیں مانگتے ہیں جن کی توجہ‘ محنت اور ایمانداری نے چند درجن یا چند سو نہیں بلکہ ہزاروں یتیموں‘ بیوائوں‘ معذوروں اور بوڑھے افراد کی پندرہ‘ بیس برسوں سے ڈوبی ہوئی رقوم انہیں لوٹائیں۔ کئی کیسز میں کہیں بھی دکھائی نہ دینے والے رہائشی پلاٹس کی نئے سرے سے الاٹمنٹس کرائی گئیں۔ ایسے تمام لوگ ایک سابق ڈی جی نیب کو آج بھی یاد کرتے ہیں کیونکہ ان کے دور میں رہائشی سکیموں کے متاثرین کو ڈوبی ہوئی رقوم کی قسطوں کی ادائیگی کا سلسلہ شروع ہوا تھا مگر ابھی پہلی قسط کی ہی ادائیگی ہوئی تھی کہ انہیں کھڈے لائن لگا دیا گیا۔ اس کیلئے جس ہاتھ کو استعمال کیا تھا‘ گو کہ وہ خود بھی مکافاتِ عمل کر شکار ہو کر اقتدار کے بڑے ایوان سے نکل کر اب اپنے اپنے گھر جا چکا ہے لیکن وزیراعظم صاحب کو سوچنا ہو گا کہ ان سے اس قسم کے اور نجانے ایسے کتنے فیصلے اس قسم کے لوگوں نے کہاں کہاں کرائے۔ پیاز کے یہ چھلکے ایک ایک کر کے اترنے لگے ہیں اور جلد یا بدیر حکومت کو ہوش بھی آ جائے گا لیکن اس و قت تک بہت دیر ہو چکی ہو گی کیونکہ لندن والوں کی راہ کے بہت سے کانٹے ہٹائے جا چکے ہیں۔