مجھے گورنر بنا کر سائیڈ لائن کر دیا گیا حالانکہ میں چاہتا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
لندن ( یب ڈیسک) گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے کہا کہ وہ پنجاب کا گورنر نہیں بننا چاہتے تھے لیکن انہیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے رسمی عہدہ سنبھالنے کیلئے کہا تھا اور بعد میں احساس ہوا کہ مجھے سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے ۔ گورنر پنجاب نے یہاں پاکستانی میڈیا
سے موجودہ نظام کی ناکامی کے بارے میں تفصیلی بات کی جو کہ بوسیدہ ہو چکا ہے اور عوام کی ضروریات کو پورا نہیں کر رہا ۔ انہوں نے کہا کہ میں سینیٹ کا رکن تھا اور میں گورنر کے عہدے کا خواہاں نہیں تھا لیکن مجھے یہ سونپ دیا گیا جب آپ ایک پاروٹی میں شامل ہوں تو آپ کو پارٹی کے فیصلے قبول کرنے پڑتے ہیں
اور آپ بغاوت نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہماری پارٹی کا متفقہ فیصلہ تھا ۔ جب ایک رپورٹر نے سوال کیا کہ کیا یہ آپ کو سائیڈ لائن کرنےکیلئے کیا گیا تو گورنر پنجاب نے کہا کہ مجھے بعد میں یہ معلوم ہوا۔ اگرمجھے کوئی اور رول دیا جاتا تو میں ڈلیور کر سکتا تھا ۔ چوہدری سرور نےکہا
کہ میں پینے کے صاف پانی کے پروجیکٹ اور یونیورسٹیز پورٹ فولیو سمیت ایریازمیں تفویض کی گئی ذمہ داریاں پوری کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہوں ۔ انہوں نے کہاکہ ہم ابھی تک عدالتی اور پولیس اصلاحات لانے میں ناکام رہے ہیں ۔ یہ پاکستان کا المیہ ہے کہ ہم نے اپنے ادارے مضبوط نہیں کئے۔ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں اس میں ناکام ہو چکی ہیں ۔
ہم شخصیات کے پیچھے بھاگتے ہیں اور اداروں کو مضبوط کرنے کے بارے میں نہیں سوچتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 1122 کو ایک بڑی ریسکیو سروس میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کا سسٹم یو کے سے بہتر ہے کیونکہ یہ سروس سکاٹش مہارت سے شروع اور انہیں ویسی ہی تربیت دی گئی ہے ۔ جب شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب اور نواز شریف وزیر اعظم تھے
تو ہم نے اوورسیز پنجاب کمیشن کا آغاز کیا تھا اور میں یہ کہوں گا کہ یہ ادارہ اچھا ڈیلیور کر رہا ہے۔ اس میں اوورسیز پاکستانیز کے 1800 کیسز تھے اور ان میں 800 کیسز شکایت کنندگان کے اطمینان کے مطابق حل کر دیئے گئے تھے۔ گورنر پنجاب نے کہا کہ موجودہ نظام میں بھرپور اصلاحات اور بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ورنہ کچھ بھی نہیں بدلے گا ۔ پولیس اور عدلیہ میں مکمل اور ہول سیل اصلاحات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نظام انصاف عوام کو انصاف فراہم نہیں کر رہا ہے ،فوجداری نظام انصاف کے چار اجزا ہوتے ہیں۔ پہلے تفتیش آتی ہے ،ہمارے ججز کہتے ہیں
کہ ہمارے پراسیکیوشن سسٹم میں خرابیاں ہیں ۔ پراسیکیوشن کا کوئی سسٹم نہیں ہے ۔ عدلیہ برسوں تک مقدمات کا فیصلہ نہیں کرتی۔ ہماری پریژن سروس اس قدر بوسیدہ حال ہے کہ چھوٹے چھوٹے کرائمز میں ملوث افراد جیل جاتے ہیں اور جب وہ باہر نکلتے ہیں تو وہ سخت مجرم بن جاتے ہیں ۔ انہوں نےکہا کہ حالات کو تبدیل کرنے کیلئے ہمیں ان تمام شعبوں میں اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے ۔