ملک چلانے کے لیے ایک کرکٹر کو کیوں سونپ دیا ؟
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار نجم ولی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔میرے پچھلے کالم ’ نواز شریف بازی ہار گئے‘ کامطلب اور مفہوم یہ بھی لیا گیا کہ جیسے مقابلہ نواز شریف اور عمران خان کے درمیان تھا جس میں نواز شریف کے بازی ہارنے کا مطلب ہے کہ عمران خان کامیاب ہو گئے ہیں
مگر یہ رائے قائم کرنے والے ان دونوں کی کامیابی اور ناکامی کے میدانوں میں فرق نہیں کر پائے۔ نوازشریف کی کامیابی اور ناکامی ان کی مقدمات سے بریت کے ساتھ محفوظ وطن آمد، شفاف انتخابات اور اقتدار میں واپسی میں چھپی ہوئی ہے جبکہ عمران خان کی کامیابی اور ناکامی وطن عزیز میں تبدیلی لانے، نیا پاکستان بنانے اور عوام کو ریلیف دینے میں مضمر ہے جس میں مقتدر حلقوں کے بھرپور تعاون کے باوجود مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ حکمران لچھے دار باتیں کرتے ہیں، ان کے پاس بہت سارے اعداد وشمار بھی موجود ہیں جنہیں وہ اسی طرح فر فر بولتے ہیں جس طرح میٹرک کے سٹوڈنٹس رٹا لگا کر اسباق سناتے ہیں مگر جب عام آدمی کسی بھی سرکاری ادارے میں جاتا ہے، اسے پہلے سے کہیں زیادہ بدانتظامی، بدعنوانی اور بدمعاشی کا سامنا کرنا پرتا ہے، وہ ہسپتالوں میں جاتا ہے تو اسے ادویات نہیں ملتیں، اس کے بچوں کو مفت اور معیاری تعلیم نہیں ملتی، وہ بازاروں میں جاتا ہے تو اسے آٹے، گھی، چینی، میڈیسن سمیت ہر شے پہلے سے کم و بیش دو گنا نرخوں پر ملتی ہے تو اسے حکومتی دعوے اوراعداد وشمار بھول جاتے ہیں اور وہ جو کچھ کہتا ہے وہ یہاں بیان نہیں ہوسکتا۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ جو لوگ انتخابات سے پہلے عمران خان کی قیادت اور صلاحیتوں پر اعتراضات کر رہے تھے ان کے کچھ تصورات اور کچھ تعصبات تھے مگر آج تین برس گزرنے کے بعد ملک کی جو حالت ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ درست تھے۔اپوزیشن کہتی ہے کہ
عمران خان سلیکٹڈ ہیں ، یہ بھی درست مگر سوال ہے کہ یہاں پر سب ہی سلیکٹ ہونے کی قطار میں لگے ہوئے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ بلاول متبادل کے طور پر سلیکٹ ہوچکے جبکہ نواز شریف کی محمد زبیر کے ذریعے بھیجی گئی درخواست ایک مرتبہ پھر مسترد ہو چکی۔ میں سڑکوں اور بازاروں پر جب عوام سے ملتا ہوں تو ان کے شکوے بدانتظامی اور مہنگائی کے ہیں اور مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر عمران خان ایک شفاف حکمرانی دے دیتے، تین برسوں میں اداروں میں اصلاحات لے آتے تو عوام کو اس سے کچھ غرض نہ ہوتی کہ وہ سلیکٹڈ ہیں یا واقعی الیکٹڈ ہیں۔ لاہور کی سڑکوں پر اگر لوگ نواز شریف کو یاد کرتے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں کہ نواز شریف ان کی خالہ کے بیٹے ہیں بلکہ وہ ان کی دی ہوئی ڈیویلپمنٹ اور سہولتوں کو یاد کرتے ہیں۔عمران خان کی حکمرانی نے ان طبقوں کی عزت اور محبت میں اضافہ نہیں کیا جو انہیں لائے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ماضی کے مقابلے میں یہ ایک ایسی سلیکشن ہے جس کو عوام کی حمایت بھی حاصل ہے،کوئی مانے یا نہ مانے، عمران خان اپنے ووٹروں اور سپورٹروں کے لئے کرشماتی شخصیت رکھتے ہیں وہ نہ میر ظفر اللہ جمالی ہیں اور نہ ہی شوکت عزیز، یہ ان کا پلس پوائنٹ ہے۔ہمیں ایک آئیڈیل سیچویشن میں حکومت کرنے کے باوجود عمران خان کی ناکامی کی وجوہات پر غور کرنا ہو گا۔ سینئر صحافی، برادر محترم اشرف ممتاز نے اس پر مدلل تجزیہ دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ آج کے دور کی جدید ریاست کو چلانا آسان کام نہیں ہے جبکہ عمران خان ریاست چلانے کے لئے براہ راست اعلیٰ ترین عہدے پر بٹھا دئیے گئے ہیں۔ وہ اس سے پہلے مقامی ، صوبائی یا وفاقی حکومت کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے ۔اشرف صاحب اسی دلیل کے ساتھ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کے براہ راست وزیراعظم بننے کی خواہش پر بھی اعتراض رکھتے ہیں تاہم میں سمجھتا ہوں کہ مریم نواز کے گھر میں حکومت رہی ہے، وہ بچپن سے سیاست کے کھیل کو دیکھتی رہی ہیں اوردوسری طرف بلاول بھٹو زرداری نہ صرف سیاست سیکھتے رہے ہیں بلکہ وہ سندھ حکومت کے فیصلوں میں بھی دخیل ہوتے ہیں لہٰذا میں انہیں جناب عمران خان کی حد تک ناتجربہ کار نہیں سمجھتا۔ وہ تجویز کرتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں شہباز شریف بہترین چوائس ہوسکتے ہیں جن کے پاس پنجاب چلانے کا تجربہ ہے۔ میں اس میں چوہدری پرویز الٰہی کو بھی شامل کرلیتا ہوں۔ یہ دونوں شخصیات اس شرط کو بھی پورا کرتی ہیں جو موجودہ سیاست اور حکومت میں ضروری سمجھی جا رہی ہے کہ یہ مفاہمت پسند ہیں۔ دروغ بہ گردن راوی، جناب عمران خان نہ صرف ریاستی اور انتظامی تجربات سے عاری ہیں بلکہ وہ اب بھی جہاں ٹھوس اقدامات کے بجائے محض بیان بازی کے ذریعے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہاں وہ طویل انتظامی اجلاسوں میںاپنی دلچسپی بھی دس، پندرہ منٹ سے زیادہ برقرار نہیں رکھ سکتے جس کی وجہ سے وہ نہ معاملات کی تہہ تک پہنچتے ہیں
اور نہ انہیں حل کر پاتے ہیں۔ ہمیں عمران خان کو اس پر مارجن دینا ہوگا کیونکہ انہوں نے کسی سیاستدان یا بیوروکریٹ کی نہیں بلکہ ایک ’ سٹار‘ کی زندگی گزاری ہے اور وہ ایک سٹار کی طرح ہی پہلے سے بنائے ہوئے ذہن کے ساتھ اجلاسوں میں آتے ہیں۔ ہمیں اس امر کو بھی ملحوظ رکھنا ہوگا کہ وہ سیکھنے کی عمر اور مرحلے سے گزر چکے ہیں جبکہ وہ جن معاملات کو ڈیل کر رہے ہیں ان میں سیکھنے اور جاننے کا مرحلہ سب سے اہم ہے ۔مجھے یہاں انتخابات سے قبل سوشل میڈیا پر کہی جانے والی بات یادآ رہی ہے کہ ہم اپنی گاڑی ایک اناڑی کو نہیں دیتے کہ یہ کہیں ٹکر مار دے گا یا اس کا انجن سیز کر دے گا مگر اپنا پیارا قیمتی وطن ایک اناڑی کے حوالے کر رہے ہیں۔ ہمیں سرطان ہوجائے تو ہم علاج کے لئے انجینئر کے پاس نہیں جاتے، ہم نے مکان بنوانا ہو توڈاکٹر سئے نقشہ نہیں بنواتے، ہم نے گاڑی مرمت کروانی ہو تو مکینک کو ہی ڈھونڈتے ہیں مگر ملک چلانے کے لئے ہم تجربے کو اہمیت نہیں دیتے، کرکٹر کے حوالے کر دیتے ہیں۔یہ تین برس ہمیں بتاتے ہیں کہ مقتدر حلقوں اور عوام کے درمیان ففٹی ففٹی کی پارٹنر شپ کے بغیر ملک نہیں چلایا جا سکتا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ نواز شریف ناگزیر ہیں کیونکہ ناگزیر کوئی بھی نہیں مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ ان تین برسوں میں عمران خان ضرور ناکام ہو گئے ہیں۔ دوسرا بڑا ایشو یہ ہے کہ انہوں نے
ساٹھ فیصد پاکستان یعنی پنجاب بھی ایک ناتجربے کار کے حوالے کر دیا ہے جو صوبہ چلاتے ہوئے ’ ٹرین‘ ہو رہے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی ہماری بی ایم ڈبلیو پر ڈرائیونگ سیکھ رہا ہو۔ملک کو ایسی قیادت کی اشد ضرورت ہے جو مفاہمت پسند ہونے کے ساتھ ساتھ ریاست کو چلانے کا تجربہ اور ڈیلیور کرنے کی اہلیت رکھتی ہو۔ میں کسی سیاسی تعصب کے بغیر، ایک محب وطن پاکستانی کے طور پر، اپنے وطن کے بہتر مستقبل اور اپنی ہم وطنوں کی مشکلات کے ازالے کے لئے خلوص دل سے کہتا کہ پاکستان اس حکمرانی کا کسی طور مزید متحمل نہیں ہوسکتا اور مستقبل کے لئے شہباز شریف کا نام تجویز کرتا ہوں مگر ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ کسی مخالف کے بجائے خود ان کے لیڈر، ان کے بڑے بھائی ہیں۔ کیا خوب مثال دی گئی ہے کہ جب ایک باپ کو اولاد اور بھائی میں سے کسی ایک کا چناو کرنا پڑے گا تو اس کی سلیکشن ہمیشہ اس کی اولاد ہو گی۔ باقی، ہمارے نصیب میں جو لکھا ہے وہ ہو کر رہے گا۔