پیشگوئیاں
مضمون نگار رفاقت جاوید نے پروین شاکر پر لکھی گئی اپنی کتاب ’پروین شاکر جیسا میں نے دیکھا‘ میں لکھا ہے کہ ’اپنی موت سے کچھ عرصے قبل جب پروین شاکر ممبئی گئی تھیں تو انھوں نے رفاقت جاوید کے ساتھ ایک جوتشی سے ملاقات کی تھی جو جوتشی چوہان کے نام سے معروف تھا۔
اس نے پروین شاکر کا ہاتھ دیکھ کر ان کے ماضی کی بعض باتیں بالکل درست بتائی تھیں اور پیشگوئی کی تھی کہ ان کا ایک بہت بڑا ایکسیڈنٹ ہو گا جس میں ان کا ڈرائیور جائے حادثہ پر
جان سے محروم ہو جائے گا اور اگر وہ بچ گئیں تو اپنے پیر سے محروم ہو جائیں گی۔ اس ملاقات کے بعد پروین شاکر زندگی کے بارے میں بہت سنجیدہ ہو گئیں۔‘انھوں نے لکھا:موت کی آہٹ سنائی دے رہی ہے دل میں کیوں۔۔
۔کیا محبت سے بہت خالی یہ گھر ہونے کو ہے۔۔۔سنہ 1994 میں پروین شاکر کی کلیات ’ماہ تمام‘ شائع ہوئی تو لوگوں نے اس کے عنوان کو بھی بدشگونی سے تعبیر کیا اور کہا کہ ماہ
تمام کے بعد تو زوال شروع ہو جاتا ہے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب پروین شاکر بھارت کی ایک نوجوان آنجہانی شاعرہ گیتانجلی کی نظموں کو اردو میں منتقل کر رہی تھیں۔کیا ستم ہے
کہ جب گیتانجلی البم کا مسودہ مکمل ہوا اور کتاب تکمیل کے مراحل طے کر چکی تھی تو پروین زندگی کی لڑائی ہار چکی تھیں۔پروین شاکر کی پہلی برسی کے موقع پر یہ کتاب منظر عام پر آئی۔
احمد سلیم نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا کہ ’یہ کتاب پروین کی زندگی میں شائع ہوتی تو میں اسے موت کے تاروں سے چھیڑا گیا زندگی کا نغمہ قرار دیتا، اب یہ کتاب زندگی کے تاروں سے چھیڑا گیا
موت کا کالا گیت بن گیا ہے۔‘شاید اب تک گیتانجلی البم کا دوسرا ایڈیشن شائع نہیں ہوا اور پروین شاکر کے بہت سے مداح بھی ان کے اس شعری کارنامے سے ناواقف ہیں۔