وہ لڑکی جس کو ایدھی کے جھولے میں ڈال دیا گیا تھ
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار علی احمد ڈھلوں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔اٹھائیس سال پہلے مجھے کراچی، پاکستان میں واقع ایدھی ہوم میں لاوارث بچوں کے جھولے میں چھوڑ دیا گیا تھا، آپ (بلقیس ایدھی) نے مجھے پایا، آپ نے میرا نام اپنی والدہ رابعہ بانو کے نام پر رکھا،مجھے شناخت دی،پھر آپ
نے مجھے گھر دیا۔ آپ کی وجہ سے آج میں ’کچھ‘ ہوں، میری ایک پہچان ہے، اور میرے پاس پیار کرنے والے والدین ہیں کہ وہ مجھے اپنا کہلوائیں۔آپ (بلقیس ایدھی) نے خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کی، آپ ایک سرگرم کارکن، انسان دوست، نیک مقصد کے لیے پرعزم تھیں۔ آپ نے مجھے عورت کی طاقت سکھائی، خود دار اور خود اعتمادی کا سبق دیا اور غیر معمولی طور پر کسی مقصد کو حاصل کرنے کا سبق بھی میں نے آپ سے ہی سیکھا۔آپ کی وجہ سے ہی پیدائش کے وقت سے یتیم ایک ننھی پاکستانی بچی نے خواب دیکھنے کی ہمت کی۔آپ کی وجہ سے میں گریجویٹ سطح کی تعلیم کے ساتھ ایک خودمختار عورت ہوں اور دنیا میں ایک ایسے مقام پر ہوں کہ کہ آج کسی کے سامنے اپنا تعارف اعتماد سے کروا سکوں، آپ نے مجھے موقع دیا، آپ نے مجھے خواب دیکھنے کا موقع دیا،
اور آپ نے ہی مجھے آزادی سے جینا سکھایا۔دنیا کے لیے آپ بلقیس ایدھی ہیں، لیکن میرے لیے آپ بڑی اماں ہیں، آپ کی بدولت میرے پاس دو پیار کرنے والے والدین ہیں۔جنھوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ میرے پاس وہ سب کچھ ہو جس کی میں کبھی خواہش رکھتی تھی۔ میں ایک اعلیٰ ہائی اسکول گئی، پورے کالج میں اسکالرشپ حاصل کیا، برونکس ڈسٹرکٹ اٹارنی آفس، US کانگریس،USسینیٹ میں انٹرن شپ کی اور سائبر سیکیورٹی اور ڈیٹا پرائیویسی لا میں ماسٹرز کرنے کے لیے لاء اسکول گئی اور ان تمام کامیابیوں کی وجہ صرف آپ ہیں۔
آپ میں سے ان لوگوں کے لیے جو پہلی بار بلقیس ایدھی کے بارے میں پڑھ رہے ہیں۔میں چاہتی ہوں کہ آپ جانیں کہ وہ میرے لیے اور پورے پاکستان کے لیے کون تھیں۔ بلقیس ایدھی ایک ہیرو تھیں، وہ بہت سارے یتیموں (میری طرح) کی ماں اور انسانیت کے لیے پاور ہاؤس تھیں۔‘‘یہ الفاظ کسی اور کے نہیں بلکہ دنیا کی سب سے بڑی کاسمیٹکس اور لیدر مصنوعات بنانے والی کمپنی میں فائز ایک اعلیٰ عہدیدار جن کا نام رابعہ بانو ہیں کے ہیں۔ جنھیں 28سال قبل لاوارث سمجھ کر ایدھی ہوم کے ’’جھولے‘‘ میں کوئی رکھ گیا تھا۔ وہ وہیں بڑی ہوئی اور ’’ممی جی‘‘ (بلقیس ایدھی) کے زیر سایہ تربیت حاصل کی اور ایک اچھے مقام پر پہنچ گئیں۔ یہ ایک حقیقی کہانی ہے
۔اس قسم کی حقیقی کہانیوں سے کراچی سمیت ملک کے بڑے بڑے شہر بھرے پڑے ہیں، اور یہ تب تک بھرے رہیں گے جب تک انسانیت زندہ ہے۔ کیوں کہ انسانیت کی خدمت کرنے والوں کا نام تاقیامت زندہ رہتا ہے۔خیر مجھ سمیت تمام پاکستانیوں کے لیے دو دن قبل بلقیس ایدھی کی رحلت کے حوالے سے خبر کسی صدمے سے کم نہیں تھی۔ وہ ایدھی فاؤنڈیشن کی چیئر پرسن تھیں۔ وہ اور ایدھی صاحب ہمارے معاشرے میں ’’خدمت‘‘ کا استعارہ ہوا کرتی تھیں، لوگ اُن سے انسانیت کی خدمت کرنا سیکھتے تھے۔اُن کا دل جذبہ انسانیت سے لیس تھا۔ان کا سانحہ ارتحال اپنے شوہر کی رفاقت میں قائم کردہ فلاحی اداروں اور ان سے وابستہ بے سہارا بچوں اور خواتین سمیت ملک و قوم کے لیے دکھ کا
باعث ہے۔پاکستان کے عوام اور حکومت کے نزدیک ان کی خدمات نہایت قابل قدر ہیں جن کے اعتراف میں انھیں ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ بھارت نے اپنی پندرہ سالہ گیتا نامی لڑکی کی دیکھ بھال کرنے پر بیگم بلقیس ایدھی کو 2015میں مدر ٹریسا ایوارڈ دیا، 1986 میں رومن میگسیسی اور بعد ازاں روسی حکومت کی طرف سے لینن پیس ایوارڈ کی صورت میں شوہر کے ساتھ ساتھ ان کی خدمات کو بھی عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا۔انہو ں نے محض سولہ برس کی عمر میں عبدالستار ایدھی کے قائم کردہ اسکول سے نرسنگ
کی تربیت حاصل کی۔ محنت،لگن اور جوش و جذبہ دیکھتے ہوئے انھیں اسی ادارے میں نرسنگ کی ذمے داریاں سونپ دی گئیں۔شادی کے بعد دونوں مخیرشخصیات نے بہت سے فلاحی کاموں کا بیڑہ اٹھایا اور اپنا ایک ایک پیسہ ان کے نام وقف کردیا جن میں آج ملک بھر کے ایدھی ہومز اور جھولا کے نام سے مراکز شامل ہیں۔غریبوں کی آخری آس بلقیس ایدھی عظیم سوچ ،مقصد اور خواہش رکھتی تھیں۔زندگی میں ہمیشہ سادگی کی ادا کو اپنایا اپنے چھوٹے سے آنگن میں ، اپنی گود میں لاکھوں بچوں کی پرورش اور تربیت کی۔وہ محسن انسانیت تھیں ،جس نے بلا تفریق مذہب و ملت اور رنگ و نسل،دکھی مخلوق خدا کی صحیح معنوں میں بے لوث خدمت کی۔بلقیس ایدھی ،عبدالستار ایدھی ،رتھ فاؤاور دیگر بے شمار ایسی شخصیات ہیں جنھوں نے دھرتی پاکستان کی حقیقی معنوں میں جذبہ خدمت سے سرشار ہو کر خدمت کی۔ان تمام تر شخصیات کے برعکس اگر ہم اپنے سیاست دانوں کی
عوامی خدمات ،جن کا وہ پل پل دعویٰ کرتے تھکتے نہیں بالکل زیروہے۔اس لیے میرے خیال میں سیاستدان عبدالستار ایدھی کی زندگی سے سبق سیکھیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ’’سیاست‘‘ انسانیت کی خدمت کا دوسرا نام ہے مگر ہم نے اسے ’’اقتدار ‘‘ حاصل کرکے اپنے مقاصد کے لیے رکھ لیا ہے۔ یعنی ہمارے سیاستدان اس وقت جو کر رہے ہیں، جو کچھ اسمبلیوں میں ہو رہا ہے، جو کچھ سڑکوں پر ہو رہا ہے، جو کچھ جلسے جلوسوں میں ہو رہا ہے، جو کچھ عدلیہ میں ہو رہا اور جو کچھ ایک دوسرے کے خلاف ہو رہا ہے۔اُس سے ایسا لگتا ہے کہ انھیں ہر قیمت پر اقتدار چاہیے، اقتدار کے لیے یہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ حالانکہ ان سب کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ بہت سے لوگ اس اقتدار میں آئے اور چلے گئے۔ بیسیوں کا تو نام بھی کسی کو یاد نہیں ہوگا۔
آپ چھوٹے اقتداری سیاستدانوں کو چھوڑیں بڑے سیاستدانوں کو دیکھ لیں ، بہت سے دنیا سے چلے گئے۔ اگر انھوں نے کوئی اچھا کام کیا ہوگا تو لوگ انھیں ضرور یاد رکھیں گے لیکن اگر صرف اقتدار حاصل کرنے کے لیے اقدامات کیے ہوں گے تو یہ بلاشبہ اپنے لیے بھی نقصان دہ ہوگا اور خاندان کے لیے بھی۔ کیوں کہ یہ بات تو طے ہے کہ تاریخ میں کسی کا نام زبردستی نہیں لکھا جا سکتا۔آپ سر گنگا رام کو دیکھ لیں، سر چھوٹو رام کو دیکھ لیں، گلاب دیوی اور دیگر غیر مسلم کو دیکھ لیں جنھوں نے انسانیت کی خدمت کی انھیں مذہب سے بالا تر ہو کر آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ شخصیات ہماری نصابی کتب میں بھی نہیں ہیں مگر انھوں نے انسانی خدمت کی اس لیے دنیا آج بھی انھیں اچھے کاموں کی بدولت یاد کر تی ہے۔