تین کام کرو اللہ تم سے راضی ہوجائے
تین کام کرو اللہ تم سے راضی ہوجائے ،گادنیااور آخرت سنور جاےگئی حضرت علی کا فر مان سن لیںامام علی ؓ نےفرمایا پہلا کام باربار انسان اپنی خطاؤں پر پشیمان ہوتا رہے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہے دوسرا کام اپنا دل اللہ کی مخلوق کے لئے نرم رکھ کر جئے جتنا ہوسکے اپنے وجود سے لوگوں کو فائدہ دینے کی عادت بنالے اور تیسرا کام ہر نیک کام صدقے کی نیت سے کرے اللہ کی مخلوق کو دیکھ کر اگر مسکرائے تو یہ سوچ کر مسکرائے کہ
اس خلقت کو اللہ نے پیدا کیا ہے کسی کی مدد کرے تو یہ سوچ کر مدد کرے کہ میرا اس کی مدد کرنا اللہ کےنزدیک مجھے محبوب بنائے گا اس مدد کی امید نہ رکھے اگر دنیا سے محبت کرتا ہے بھلائی کرتا ہے تو اس بھلائی کی امید نہ رکھے جس انسان میں نیکی کرنے کا فعل صدقہ کی نیت سے ہو گا
اللہ کی مخلوق کے لئے اس کا دل نرم ہوگا اور باربار اپنی خطاؤں کو لے کر پشیمان ہوگا تو سمجھ جانا یہی وہ انسان ہے جو اللہ کے قریب رہ کر اللہ کو راضی کربیٹھا ہے ۔ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ اور اپنے کو پکا و سچا مؤمن کہنے والے ایسے بھی ہیںکہ جو زندگی کے دو راہے پر لوگوں کی خوشی کو اپنے معبود کی خوشی و رضا پر ترجیح دیدیتے ہیں انہیں یہ بات معلوم ہونی چاہیئے
کہ ان کا یہ کام ایمان کے ضعیف ہونے اور غضب الہی کے نزدیک ہونے اور رحمت الہی سے دور ہونے کا سبب بنتا ہے ۔ہر چیز کی اپنی کچھ نشانیاں اور علامتیں ہوتی ہیں جس سے وہ پہچانی جاتی ہے اور چونکہ اللہ تعالٰی نے اپنی رضا اور اپنی خوشی کو بندے پر اپنی سب سے عظیم نعمت کے طور پر یاد کیا ہے ایسی نعمت جس کا کسی دوسری چیز سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔
اور اکثر لوگوں کے دل میں کبھی نہ کبھی یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ ہم نماز پڑھتے ہیں، پورا رمضان روزہ رکھتے ہوئے ہوگئے تو کیا خدا ہم سے راضی ہوا یا نہیں چنانچہ روایات میں اللہ کے
اپنے کسی بندے سے راضی رہنے کی کچھ علامات بیان کی گئی ہیں جن سے انسان مطمئن ہوسکتا ہے کہ اس کا پروردگار اس سے خوش ہے یا نہیں: ایک مرتبہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا:پروردگار! مجھے ان نشانی سے آگاہ کر جس سے یہ معلوم ہوسکے
کہ تو اپنے بندے سے خوش ہے؟اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا:جب تم یہ پاؤ کہ میں اپنے بندے کو اپنی اطاعت و بندگی کے لئے آمادہ کررہا ہوں اور اسے گناہ سے دور رکھ رہا ہوں تو یہی میرے اس سے خوش اور راضی رہنے کی نشانی ہے۔حدیث کی روشنی میں کسی بندے کا اپنے پروردگار کی قضا و قدر
اور فیصلوں پر راضی رہنا اور اس کے کسی فیصلے کے خلاف حرف شکایت زبان پر نہ لانا اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ اس بندے سے خوش ہے۔ چنانچہ امام علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:اپنے بندے سے اللہ کی رضا کی علامت یہ ہے کہ وہ اللہ کے ہر فیصلہ پر راضی اور تسلیم رہے چاہے وہ فیصلہ اس کے فائدے میں ہو یا نقصان میں۔ایک دیگر روایت میں ملتا ہے
کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالٰی کی بارگا میں عرض کیا: پروردگار!اپنے بندے سے تیرے خوش رہنے کی نشانی کیا ہے؟اللہ تعالٰی نے ان پر وحی نازل فرمائی: اے موسٰی جب تم اپنے دل میں مساکین کی محبت اور ظالمین سے نفرت کو محسوس کرو تو سمجھ لینا کہ ہم راضی ہیں۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین