جنت میں حضرت آدم علیہ السلام کتنی مدت ٹھہرے؟
جنّت میں تمام آسائشیں، نعمتیں حضرت آدم کے لئے موجود تھیں، لیکن پھر بھی حضرت آدمؑ تنہائی اور اجنبیت محسوس کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی تنہائی دُور کرنے کا بندوبست کیا
اور حضرت حوّاؑ کو پیدا کر دیا۔ محمّد بن اسحاق، حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت حوّاؑ کو حضرت آدمؑ کی بائیں طرف کی چھوٹی پسلی سے پیدا کیا گیا، جب کہ وہ سو رہے تھے۔ پھر اللہ نے
حضرت آدم ؑ کو حکم فرمایا کہ وہ اور اُن کی بیوی جنّت میں سکونت فرمائیں اور فرمایاجہاں سے چاہو، بِلا روک ٹوک کھاؤ، لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا،
ورنہ پاپ کارن کے بے شمار فوائد، شوگر سمیت کئی بیماریوں کا علاط-ا-ل-م-وں میں سے ہو جاؤ گے (البقرہ35:)۔ حضرت آدمؑ اور حضرت حوّاؑ بڑے آرام سے جنّت میں رہنے لگے۔ روایت ہے کہ حضرت آدمؑ سو سال یا ساٹھ سال جنّت میں رہے۔
اس عرصے میں ان پر جنّت کے کسی بھی حصّے میں جانے پر پابندی نہیں تھی، سوائے شجرِ ممنوعہ کے۔ ش-ی-ط-ا-ن ان دونوں کا کُھلا د-ش-م-ن تھا اوراپنی س-ز-ا کا بدلہ لینے کے لیے بے قرار بھی بہت تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ یہ اللہ کے حکم کے خلاف جائیں۔ پھر ش-ی-ط-ا-ن نے اُن دونوں کے دِلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ اُن کی ش-ر-م گاہیں، جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھیں، بے پردہ ہو جائیں۔ اُس نے
اُنھیں کہا’’ تمہارے ربّ نے تم دونوں کو اس درخت سے اس لیے منع فرمایا کہ کہیں یہ پھل کھا کر تم دونوں فرشتے نہ ہو جاؤ یا کہیں ہمیشہ زندہ رہنےوالوں میں سے ہو جاؤ‘‘(الاعراف)۔ ش-ی-ط-ا-ن کی باتوں میں آکر حضرت حوّاؑ سوچنےلگیں
اور پھر ش-ی-ط-ا-ن کی سازش رنگ لائی اور اس نے حضرت حوّاؑ کو پھل کھانے پر راضی کر لیا۔ ایک دن حضرت حوّاؑ نے حضرت آدمؑ سے کہا کہ’’ ہم اس شجرِ ممنوعہ کا ذرا سا حصّہ کھا کردیکھتے ہیں،آخراس میں کیا راز ہے، جو اللہ نے اسے ہمیں کھانے سے منع فرمایا ہے۔‘‘شروع میں
تو حضرت آدمؑ اس کے لیے بلکل بھی تیار نہ ہوئے، لیکن پھر حضرت حوّاؑ کے مسلسل کہنے پر وہ بھی راضی ہو گئے۔ ابھی ان دونوں نے پھل کو پورری طرح سےکھایا بھی نہ تھا کہ اُن کی ش-ر-م گاہیں ایک دوسرے پر عیاں ہو گئیں، جس پر دونوں بدحواسی میں جنّت کے درختوں کے
پتّے توڑ توڑ کر اپنا جسم چُھپانے لگے۔ اللہ نے دونوں کو پکارا اور فرمایا ’’کیا میں نے تم کو منع نہیں کیا تھا کہ اس درخت کا پھل نہ کھانا اور ش-ی-ط-ا-ن کے وَرغلانے میں نہ آنا، یہ تمہارا کُھلا د–ش-م-ن ہے‘‘(الاعراف)۔دونوں نے جب اللہ کی پکار سُنی،
تو مارے خ-و-فِ الٰہی کے کانپ اٹھے۔ نہایت لاچارگی اور عاجزی سے اپنی خطا پر شرمندہ ہوتے ہوئے بارگاہِ خداوندی میں عرض کی’’اے ہمارے ربّ! ہم دونوں سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے، اب اگر آپ نے ہم پر رحم وکرم نہ کیا اور معاف نہ فرمایا،
تو ہم ت-ب-ا-ہ و ب-ر-ب-اد ہو جائیں گے‘‘(الاعراف23)۔حق تعالیٰ نے فرمایا کہ’’ اب تم دونوں ایک خاص مدّت تک زمین ہی پر رہو گے، جہاں تم ایک دوسرے کے د-ش-م-ن ہو گے اور وہاں ہی مرنا ہے اور اسی میں سے پھر پیدا ہونا ہے‘‘(الاعراف 25)۔اسطرح دونوں کو زمین پر بھیج دیا گیا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو. آمین