طارق عزیز مرحوم عروج کے دنوں میں ایک پروگرام کے کتنے پیسے لیتے تھے ؟
لاہور (ویب ڈیسک) نامور مضمون نگار طاہر سرور میر بی بی سی کے لیے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔علم و سائنس کی دنیا میں
جس طرح ہر ابتدا ارسطو سے جا ملتی ہے اسی طرح برصغیر میں انٹرٹینمنٹ اور نیوز چینلز پر دکھائے دینے والے ٹی وی پروگراموں کے ہر فارمیٹ کے بانی طارق عزیز جا نکلتے ہیں۔
اس خطے میں اُن کی حیثیت اُستادوں کے اُستاد کی سی تھی۔نیوز کاسٹنگ ہو یا ہوسٹنگ، اہم شخصیات کے سٹوڈیو انٹرویوز ہوں یا تعلیمی و تفریحی ٹیلی ویژن شوز سکرین پر ان سب کی ابتدا طارق عزیز نے کی۔اداکار سہیل احمد بتاتے ہیں کہ گذشتہ دو، تین دہائیوں میں پاکستان اور آس پاس کے ممالک کے نجی ٹیلی ویژن چینلز میں جو کچھ بھی دکھایاگیا
اُس کی شروعات طارق عزیز کے ہاتھوں ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ بڑے بڑے انڈین سٹارز کی میزبانی میں چلنے والے ٹی وی شوز کا مرکزی آئیڈیا اور فارمیٹ طارق عزیز کے ٹی وی شوز سے مستعار لیا گیا۔شاید یہی وجہ ہے کہ ایک عرصہ سے انڈین نجی ٹی چینل پر مقبول ساجد خان اور رتیش دیش مکھ کا پروگرام
’یاروں کی بارات‘ بلوواسطہ طور پر اور پاکستان میں فہد مصطفیٰ کے انعامی ٹی وی شو پر طارق عزیز کے انداز کی گہری چھاپ دیکھی جا سکتی ہے۔26 نومبر 1964 کو پاکستان ٹیلی ویژن نے جب لاہور سے اپنی نشریات کا آغاز کیا تو طارق عزیز اُس پر دکھائی دینے والا پہلا چہرہ تھے۔ وہ پی ٹی وی پر 56 برس کی طویل مدت تک نظر آتے رہے۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ انھوں نے پی ٹی وی کے علاوہ کسی بھی نجی ٹی وی کے لیے کبھی کام نہ کیا حالانکہ پرائیویٹ سیکٹر سے انھیں بھاری معاوضے کی پیشکشیں کی جاتی رہیں
۔سنہ 2000 میں جب پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کی شروعات ہوئی تو پی ٹی وی کے سٹارز اور سپر سٹارز کو منھ مانگے معاوضوں پر پرائیویٹ چینلز نے ہائر کیا جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ عوام کو اپنے چینل سے وابستہ کرنا تھا۔اس مہم کے تحت لگ بھگ پی ٹی وی کے پلیٹ فارم سے معروف ہونے والا ہر چہرہ پرائیویٹ چینلز پر جلوہ گر ہوا،
لیکن طارق عزیز پرائیویٹ سیکٹر کی دسترس سے باہر رہے، حالانکہ وہ چاہتے تو نجی ٹی وی شعبے سے اچھی خاصی رقم بنا سکتے تھے۔زندگی کے آخری 16 برسوں میں طارق عزیز کے ساتھ پروڈیوسر کی حیثیت سے کام کرنے والے آغا قیصر بتاتے ہیں کہ نجی ٹی وی کے ہر قابل ذکر میڈیا ہاؤس کی خواہش رہی
کہ طارق عزیز اُن کی ٹی وی سکرین پر آ کر ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگائیں، لیکن انھوں نے قومی ٹی وی سے وابستہ رہنا ہی اپنے لیے اعزاز سمجھا۔آغا قیصر نے ایک معروف میڈیا ہاؤس کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ سب سے پہلے ’رمضان ٹرانسمیشن‘ کی پیشکش ہوئی مگر لاکھوں روپے کی آفر کے باوجود انھوں نے یہ پیشکش قبول نہ کی۔’جب میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے لاکھوں روپے ٹھکرا دیے ہیں،
تو طارق صاحب نے کہا تھا کہ چاہتا ہوں میری بات اور آواز قومی ادارے ( پی ٹی وی) کے ذریعے ہی قوم تک پہنچے۔‘آغا قیصر نے بتایا کہ طارق عزیز بیماری میں بھی ریکارڈنگ کینسل نہیں کرایا کرتے تھے۔ بعض اوقات ایسا ہوا کہ طارق صاحب کو شدید بخار تھا، ہم نے انھیں مشورہ دیا کہ ریکارڈنگ کینسل کر دیتے ہیں لیکن انھوں نے کہا کہ ’نئیں یار لو گ گھراں نوں مایوس واپس جاون گئے‘ (نہیں دوست لوگ مایوس گھروں کو لوٹیں گے)۔ کیمرے آن ہوتے تو شدید بخار میں بھی اُن کے جسم میں بجلی کوند جاتی۔’طارق عزیز کے کیمروں کے سامنے آنے کے حوالے سے سہیل احمد کہتے ہیں
کہ ’طارق عزیز ونگ سے یوں سٹیج پر آتے تھے جیسے شیر میدان میں نکلتا ہے۔‘طارق عزیز اپنے کیریئر میں ملک کے سب سے مہنگے ٹی وی ہوسٹ رہے ہیں۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا انھوں نے ایک گھنٹے کا معاوضہ دس لاکھ روپے تک بھی وصول کیا ہے
اور اس کے علاوہ ایک گھنٹے سے جتنے منٹ زیادہ ہوتے تو اس کا معاوضہ الگ ملتا تھا۔لیکن یہ تو ان کے کیریئر کے عروج کا زمانہ تھا۔وہ سنہ 1960میں ریڈیو لاہور سے وابستہ ہوئے جہاں ان کا معاوضہ ڈیڑھ سو روپے طے ہوا تھا۔