ﺭﺣﻤﺖِ ﻋﺎﻣﮧ ﮐﺎ ﮐﺮﺷﻤﮧ
ﮐﻮّﮮ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺟﺐ ﺍﻧﮉﮮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧِﮑﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺳُﺮﺥ ﮔﻮﺷﺖ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ﻣﺎﮞ ﺍﺳﮯ ﺁﮒ ﮐﯽ ﭼﻨﮕﺎﺭﯼ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﻣﭽّﮭﺮ ﺍﺳﮯ ﺁﮒ ﺟﺎﻥ ﮐﺮ ﭘﺮﻭﺍﻧﮧ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﮔِﺮ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻟﻘﻤﮧ ﺑﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ
۔ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﻭ ﭘﺮ ﺍُﮔﻨﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﺳﮯ ﺁ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﺮﻭﺭﺵ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ۔ﺍﺳﯽ ﺭﺣﻤﺖِ ﻋﺎﻣﮧ ﮐﺎ ﮐﺮﺷﻤﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ : ﯾﺎ ﺭﺯﺍﻕ ﺍﻟﻐﺮﺍﺏ ﻓﯽ ﻋﻤﻌﻪ۔ ” ﺍﮮ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ! ﮐﻮّﮮ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺁﺷﯿﺎﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻟﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ۔ ” ( ﺗﻔﺴِﯿﺮ ﺭُﻭﺡ
۱،ﺝﺪﻟِ ۱،ﺻﻔﺤﮧ…. ۳حضرت غوث علی شاہ قلندرؒ کشائش رزق کیلئے وظیفہایک شخص حضرت غوث علی شاہ قلندرؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے کشائش رزق کیلئے وظیفہ پوچھا آپ نے فرمایا
میاں اگر درود و وظائف پر روزی کا انحصار ہوتا تو دنیا میں مولویوں سے بڑھ کر کوئی دولت مند نہیں ہوتا۔ سچ پوچھو تو وظیفہ اس معاملہ میں الٹا اثر کرتا ہے۔ کیونکہ دنیا ایک میل کچیل ہےاور اللہ کا نام صابن۔ بھلا صابن سے میل میں اضافہ کیونکر ہو سکتا ہے۔
خدا کا نام تو صرف اس لئے ہے کہ اس کی برکت سے دنیا کی محبت دل سے دور ہو جائے نہ اس لئے کہ آدمی دنیا میں زیادہ آلودہ ہو۔ یہ باتیں سن کر اس شخص نے پھر اصرار کیا تو فرمایا ’’خیریاباسطاً بسط فی رزقی‘‘ پڑھا کرو لیکن مسجد سے باہر۔ خدا کے گھر میں دنیا طلبی کا کیا کام؟حضرت خواجہ
محمد عبدالرحمن چوہردیؒ کے پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑویؒ سے محبانہ تعلقات تھے۔ ایک دفعہ حضرت گولڑوی نے خواجہ صاحب کے فقراور افلاس کو دیکھ کر فرمایا کہ آپ فلاں وظیفہ پڑھا کریں تو آپ کا لنگر خوب چل جائے گاور آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہو گی۔خواجہ صاحبؒ خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا۔
جب حضرت گولڑویؒ نے دو تین مرتبہ اصرار کیا تو انہوں نے فرمایا۔ ’’حضرت مجھے خدا سے شرم آتی ہے کہ باہر سے لوگ مجھے پیر سمجھ کر آئیں اور اندر پیر پیسوں کا وظیفہ پڑھتا ہو‘‘۔ حضرت پیر صاحب گولڑہ شریف نے فرمایا ’
’مرحبا جیسا آپ کو سنا تھا ویسا ہی پایا‘‘۔ایک مرتبہ ایک شخص نے حضرت مخدوم جہانیاںؒ کی خدمت میںحاضر ہو کر عرض کی کہ میں حج پر جانا چاہتا ہوں لیکن استطاعت نہیں ہے آپ بادشاہ کو لکھیں کہ وہ سرکاری خزانہ سے مجھے زادِ راہ عنایت فرمائے۔
آپ نے یہ سن کر محرروں سے فرمایا کہ بادشاہ کو لکھ دو کہ اس شخص کو زادِ راہ عنایت کیا جائے لیکن میں نے فقہ میں دیکھا ہے کہ جو شخص بادشاہوں سے خرچ لے کر حج کو جاتا ہے اس کا حج قبول نہیں ہوتا۔