ہم کون ہیں اور کہاں سے آئے! کیا ناسا کائنات کے اہم راز تک پہنچ چکا ہے؟
ناسا کے منتظم بل نیلسن کاکہنا ہے کہ یہ تصویر ایک نئی ویب سپیس ٹیلی اسکوپ کے ذریعے کھینچی گئی ہے جو 12 جولائی کو دنیا کے سامنے لائی جائے گی۔ بل نیسن کے مطابق ’یہ ایک ایسی چیز ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ پچھلے سال دسمبر میں ایک خلائی تجزیاتی پروگرام شروع کیا گیا تھا جس کے تحت بھیجے جانے والے آلات اب سورج کے مدار کے قریب ہیں جو کہ زمین سے پندرہ لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ویب نامی حیران کن دوربین کائنات کے مزید راز کھولنے کی وہ صلاحیت بھی رکھتی ہے جو آج تک کوئی اور دوربین نہیں کر سکی۔
اس دوربین میں ایسے عدسے استعمال کیے گئے ہیں جو بیچ میں گردوغبار اور گیس حائل ہونے کے باوجود صاف تصویر لے سکتے ہیں،’یہ دوربین شمسی نظام میں موجود اشیا اور دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگانے والے سیاروں کے بارے میں مزید نئی چیزیں سامنے لانے جا رہی ہے جس سے ہمیں یہ اشارہ ملے گا کہ وہاں کے حالات زمین کے حالات سے کس قدر ملتے جلتے ہیں۔
بل نیلسن کے مطابق ’ہو سکتا ہے کہ اس سے ہمارے کچھ سوالات کے جواب مل جائیں جیسا کہ ہم کہاں سے آئے ہیں؟ ہم کون ہیں؟ وہاں مزید کیا کچھ ہے؟ یقیناً اس سے کچھ ایسے سوالات کے جواب
بھی مل جائیں گے جن کے بارے میں ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ ہیں کیا؟ ویب میں نصب انفراریڈ میں ایسی صلاحیت موجود ہے کہ وہ بگ بینگ کے ہونے والی صورت حال کو گہرائی سے جائزہ لے سکے جو کہ تیرہ ارب 80 کروڑ سال قبل ہوا تھا۔
ناسا کے منتظم کا کہنا ہے کہ اب تک تین کروڑ تیس لاکھ سال تک کی تحقیق ہو چکی ہے تاہم اب خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ویب دوربین کی صلاحیت اس ریکارڈ کو توڑ سکتی ہے۔ ناسا کی ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر پام میلرائے دوربین کے حوالے سے ناسا کے
شراکت دار ایئرسپیس کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ دوربین بیس سال تک کام کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ان بیس برسوں کے دوران نہ صرف تاریخ اور وقت کی تہوں میں اتریں گے بلکہ ان سے آگے بھی جائیں گے کیونکہ ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم مزید مشاہدات کریں اور سیکھیں۔‘