in

ایک انوکھا مگر سچا واقعہ

ایک انوکھا مگر سچا واقعہ

لاہور(ویب ڈیسک)تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے اپنی زندگی کا دلچسپ واقعہ سناتے ہوئے سب کو ہننسے پر مجبور کر دیا۔ فنڈ ریزنگ تقریب میں اپنی زندگی کا ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ جب میں نے شوکت خانم ہسپتال کے لئے چندہ اکٹھا کرنا شروع کیا تولوگوں نے

دل کھول کر چندہ دیا ۔ جب کہ خواتین نے اپنے سونے کے ہار اور بالیاں تک شوکت خانم کے لئے عطیہ کر دئیے۔ شوکت خانم ہسپتال کے لئے جب میں چندہ اکٹھا کر رہا تھا تو میرا صبح سے شام تک بس دونوں ہاتھوں سے لوگوں سے پیسے لینے والا کام ہوتا تھا۔ایک بار جب ائیرپورٹ پر ایک خاتون مجھ سے آٹو گراف لینے آئیں تو وہ اپنے پرس سے ڈائری نکال رہی تھیں

لیکن ان کے پرس میں ہزار کا نوٹ بھی تھا ۔ مجھے پیسے لینے کی اتنی عادت ہو گئی تھی کہ میں نے ڈائری پکڑنے کی بجائے وہ ہزار کا نوٹ لے لیا۔ جس کے بعد مجھے بہت شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہ واقعہ میں آج تک نہیں بھولا،

۔یاد رہے کہ 1995ء میں شوکت خانم میموریل ہسپتال کے افتتاح کے موقع پر عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ وہ کبھی سیاست کے میدان میں قدم نہیں رکھیں گے کیونکہ وہ اپنے آپ کو سماجی کاموں کیلئے وقف کر چکے ہیں۔ یقیناً وہ درست کہہ رہے تھے کیونکہ انہوں نے ہسپتال کی افتتاحی تقریب میں کسی حکومتی شخصیت اور کسی بھی سیاسی پارٹی کے بڑے سیاستدان کو مدعو نہیں کیا تھا تاہم یوسف صلاح الدین،

جان جمالی جیسے دوسری صف کے سیاستدان عمران خان کے ذاتی دوست یا ایچی سن کے کلاس فیلو کی حیثیت سے موجود تھے۔ مگر مجھے شوکت خانم میموریل ہسپتال کی چندہ مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں میں کئی ایسے افراد اور پریشر گروپ ضرور نظر آتے تھے جو کسی

خفیہ ہاتھ کےپُراسرار ایجنڈوں پر عمل پیرا ہونا باعثِ اعزاز خیال کرتے تھے اور اس کے بدلے انہیں کچھ نہ کچھ مالی اعانت مل جاتی تھی۔ بہرحال عمران خان سے مشورہ کئے بغیر ان کے پُراسرار حمایتیوں نے شوکت خانم میموریل ہسپتال کے

افتتاح کے اگلے روز فورٹریس سٹیڈیم لاہور میں ایک بہت بڑے ہجوم کو اکٹھا کر لیا اور عمران خان کے بارے میں بار بار یہ نعرے بلند کئے گئے ’’شوکت خانم کا احسان، عمران خان عمران خان‘‘ اور بہت سارے مقررین نے عمران خان کو پاکستان کا

نجات دہندہ قرار دیا اور اُن سے مبہم انداز میں سیاست میں آنے کو کہا مگر اُس وقت انتہائی کم گو اور شرمیلے عمران خان نے اُن کی تعریف اور ستائش کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور صرف یہ کہا کہ وہ شوکت خانم کی فنڈ ریزنگ کیلئے اپنی زندگی وقف کر چکے ہیں اور اب وہ پہاڑوں کی تنہائی میں رہنا چاہتے ہیں

اور کچھ وقت شکار کھیلنے میں گزاریں گے۔ اِن دنوں وہ ہمیں سادہ لباس اور اپنی عزت نفس کے تحفظ کیلئے ڈاکٹر علی شریعتی کی باتیں بتاتے تھے۔ ایک دفعہ وہ کوئٹہ سے اسلام آباد آئے تو میں اُنہیں لینے ائر پورٹ پہنچا اور گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کیلئے کہا تو انہوں نے کہا کہ میں تو فرنٹ سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھوں گا۔ میں نے کہا ایسا کس لئے؟

تو کہنے لگے ایران میں یہ رواج نہیں ہے کہ ڈرائیور گاڑی چلائے اور صاحب پچھلی نشست پر براجمان ہو۔ وہ بار بار فنڈ ریزنگ کیلئے عاشق حسین قریشی کے ہمراہ اسلام آباد تشریف لاتے اور شوکت خانم ہسپتال کے رضاکاروں سے انتہائی نرمی، محبت اور عزت سے پیش آتے مگر ہجوم میں اگر کوئی اُن کے ساتھ چپکنے کی کوشش کرتا تو اس کا سخت بُرا مناتے۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

جائیداد تم لے لو ، ماں باپ مجھے دے دو ۔۔۔

ابابیل کا گھونسلہ، جس کی فی کلوگرام قیمت 17 لاکھ روپے تک ہوتی ہے اور اسے کھایا جاتا ہے