حضرت خضرؑ اور موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات کا ایک حیرت انگیز قرآنی واقعہ
حضرت خضرؑ اور موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات کا ایک حیرت انگیز قرآنی واقعہ
حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ (علیٰ نبینا وعلیہ السلاۃ والسلام) اللہ عزوجل کے جلیل القدر نبی اور رسول تھے۔
اللہ (عزوجل ) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام ) کو اپنے ساتھ ہمکلامی کا شرف بخشا۔ اسی وجہ سے انہیں “کلیم اللہ” کا لقب ملا۔ یعنی جو اللہ (عزوجل) سے کلام کرتا ہو۔
جس طرح آپ اور میں موبائل فون سے کسی کا بھی نمبر ڈائل کرکےاس سے بات کرسکتے ہیں اسی طرحسیدنا موسیٰ (علیہ السلام ) ہزاروں سال پہلے “جبل طور” پر چڑھ کر اللہ عزوجل سے ہم کلام ہوا کرتے تھے۔
اللہ اکبر جب اللہ کے عاشقوں کے دل میں اللہ (عزوجل) سے شدید محبت پیدا ہونے لگتی ہے تو عشاق چاہتے ہیںکہاپنےمحبوب کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں، اپنے رب سے باتیں کریں۔ سیدنا موسیٰ ( علیہ السلام) بھی اللہ عزوجل سے شدید محبت کرتے تھے، اسی محبت کی شدت کی وجہ سے وہ اللہ (عزوجل) سے درخواست کرتے تھے
کہ اے اللہ مجھے اپنا دیدار کروا۔ اللہ عزوجل فرماتے، اے موسیٰ تم برداشت نہیں کرپاؤ گے۔ سورہ الاعراف: آیت ،143،144 ترجمہ: ” اور جب موسٰی (علیہ السلام) ہمارے (مقرر کردہ) وقت پر حاضر ہوا اور اس کے رب نے اس سے کلام فرمایا تو (کلامِ ربانی کی لذت پا کر دیدار کا آرزو مند ہوا اور) عرض کرنے لگا:اے رب! مجھے (اپنا جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کرلوں، ارشاد ہوا: تم مجھے (براہِ راست) ہرگز دیکھ نہ سکوگے مگر پہاڑ کی طرف نگاہ کرو، پس اگر وہ اپنی جگہ ٹھہرا رہا تو عنقریب تم میرا جلوہ کرلوگے۔
پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر (اپنے حسن کا) جلوہ فرمایا تو (شدّتِ اَنوار سے) اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسٰی (علیہ السلام) بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ پھر جب اسے افاقہ ہوا تو عرض کیا: تیری ذات پاک ہے میں تیری بارگاہ میں ت-و-بہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں”۔(143)” فرمایا اے موسیٰ میں نے تجھے لوگوں سے چن لیا اپنی رسالتوں اور اپنے کلام سے تو لے جو میں نے تجھے عطا فرمایا اور شکر والوں میں ہو”۔(144) جب بھی موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ عزوجل سے باتیں کرنی ہوتیں آپ جبل طور پر چڑھ جاتے اور وہاںخوب باتیں کرتے۔ ایک دن اسی طرح باتیں کرتے کرتے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام نے فرمایا؛ “اے اللہ اس دنیا میں مجھ سے
زیادہ علم والا شاید ہی کوئی تیرا بندہ ہو۔” اللہ عزوجل نے فرمایا اے موسیٰ “خضر” تم سے بھی زیادہ علم والے ہیں آپ نے فرمایا؛ اے اللہ میں اس سے کہاں مل سکتا ہوں، فرمایا “بین سیدین” یعنی دو دریاہوں کے ملنے کی جگہ پر وہ تمہیں ملے گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے اللہ اس جگہ کی کیا نشانی ہوگی، فرمایا اپنے ساتھ ایک مچھلی لے جاؤ، جہاں تمہاری مچھلی غائب ہوجائےوہی مقام ہوگا جہاں خضر تمہیں ملے گا۔ قرآن کہتا ہےپھرموسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم حضرت “یوشع بن نون” کے ساتھ سفر شروع کیا اور حضرت یوشع سے کہنے لگے” میں ہمیشہ چلتا رہوں گا، کبھی رکوں گا نہیں یہاں تک دو دریاؤں کے ملنے کیجگہ پہنچ جاؤں۔ حضرت یوشع بن نون سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے صحابی اور ان کی وفات کے بعد ان کے جانشین مقرر ہوئے تھے۔ ان دونوں معزز صاحبان کے چلنے کو قرآن یوں بیان فرماتا ہے؛ ترجمہ : “جب موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا؛ میں تو چلتا ہی رہوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پہنچ جاؤں، خواہ مجھے سالہا سال چلنا پڑے” (سورہ کہف، آیت 60)یہاں لفظ “حقب”استعمال ہوا ہے جس کا ایک مطلب 70 یا 80 سال ہے اور دوسرا مطلب غیر معینہ مدت ہے،
یعنی موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اگر مجھے 70 یا 80 سال یا غیر معینہ مدت تک ہی کیوں نہ چلنا پڑے، میں چلتا رہوں گا، رکوں گا نہیں یہاں تک اس جگہ پہنچ جاؤں جہاں خضر سے ملاقات ہو۔ اللہ اکبرموسیٰ (علیہ السلام) یہ سفر محض اس لیے کر رہے تھے تاکہ حضرت خضر (علیہ السلام) سےعلم حاصل کرسکیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علم حاصل کرنے کے لیے چاہے جتنا دور جانا پڑے جانا چاہیے مگر علم ضرور حاصل کرنا چاہیے۔ یہ بھی یاد رہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس سفر کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ انہوں نے ایک سائل کو کہہ دیا تھا کہ مجھ سے بڑا کوئی عالم نہیں ہے۔
اللہ عزوجل کو علم پر تکبر والا یہ جملہ پسند نہیں آیا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ عزوجل سے دریافت کیا کہ اے اللہ کیا مجھ سے بڑا بھی کوئی عالم اس دنیا میں موجود ہے تو اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حضرت خضر(علیہالسلام) کا پتا بتایا۔ حضرت موسیٰ اور یوشع بن نون چلتے رہے، جب دو ریاہوں کے درمیان پہنچے تو وہاں آرام کے لیے رک گئے، جب وہ آرام کے لیے سوگئے تو ان کے تھیلے میںموجود مردہ مچھلی کو اللہ (عزوجل) نےزندہ کردیا اور وہمچھلی سرنگ بناکر اپنا راستہ خود بناتی ہوئی دریا میں چلی گئی۔ “پھر جب وہ دونوں ان دریاؤں کے ملنے کی جگہ پہنچے اپنی مچھلی بھول گئے اور اس (مچھلی) نے سمندر میں اپنی راہ لی سرنگ بناتی”۔ (کہف؛61) یاد رہے یہ واقعہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کا ہے،