بیسویں صدی میں پیدا ہونے والے ہر شخص کا مشترکہ ماضی
ایک وقت تھا جب “دوکاندار کے پاس کھوٹا سکہ چلا دینا ہی سب سے بڑا ف-ر-ا-ڈ سمجھا جاتا تھا. یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب ماسٹر اگر بچے کو م-ا-ر-ت-ا تھا تو بچہ گھر آکر اپنے باپ کو نہیں بتاتا تھا۔
اور اگر بتاتا تو باپ اْسے ایک اور تھ-پ-ڑ رسید کردیتا تھا، یہ وہ دور تھا جب ’’اکیڈمی‘‘ کا کوئی تصّور نہ تھا اور ٹیوشن پڑھنے والے بچے نکمے شمار ہوتے تھے، بڑے بھائیوں کے
کپڑے چھوٹے بھائیوں کے استعمال میں آتے تھے اور یہ کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی تھی، لڑائی کے موقع پر کوئی ہ ت ھ ی ا ر نہیں نکالتا تھا۔ صرف اتنا کہنا کافی ہوتا ’’ میں تمہارے ابا جی سے شکایت کروں گا۔‘‘ یہ سنتے ہی اکثر مخالف فریق کا خ-و-ن خشک ہوجاتا تھا اْس وقت کے اباجی بھی کمال کے تھے۔ صبح سویرے فجر کے وقت کڑکدار آواز میں سب کو نماز کے لیے اٹھا دیا کرتے تھے۔
کسی گھر میں مہمان آجاتا تو اِردگرد کے ہمسائے حسرت بھری نظروں سے اْس گھر کودیکھنے لگتے اور فرمائشیں کی جاتیں کہ ’’مہمانوں‘‘ کو ہمارے گھر بھی لے کرآئیں۔ جس گھر میں مہمان آتا تھا وہاں پیٹی میں رکھے فی-نا-ئل کی خوشبو ملے بستر نکالے جاتے خوش آمدید اور شعروں کی کڑھائی والے تکئے رکھے جاتے۔ مہمان کے لیے دھلا ہوا
تولیہ لٹکایا جاتا اورغسل خانے میں نئے صابن کی ٹکیا رکھی جاتی تھی، جس دن مہمان نے رخصت ہونا ہوتا تھا۔ سارے گھر والوں کی آنکھوں میں اداسی کے آنسو ہوتے تھے۔ مہمان جاتے ہوئے کسی چھوٹے بچے کو دس روپے کا نوٹ پکڑانے کی کوشش کرتا تو پورا گھر اس پر احتجاج کرتے ہوئے نوٹ واپس کرنے میں لگ جاتا، تاہم مہمان بہرصورت یہ نوٹ دے کر ہی جاتا، شادی بیاہوں میں سارا محلہ شریک ہوتا تھا۔ شادی غمی میں آنے جانے کے لیے ایک جوڑا کپڑوں کا علیحدہ سے رکھا جاتا تھا،
جو اِسی موقع پر استعمال میں لایا جاتا تھا. جس گھر میں شادی ہوتی تھی اْن کے مہمان اکثر محلے کے دیگر گھروں میں ٹھہرائے جاتے تھے. محلے کی جس لڑکی کی شادی ہوتی تھی بعد میں پورا محلہ باری باری میاں بیوی کی دعوت کرتا تھا.
کبھی کسی نے اپنا عقیدہ کسی پر تھوپنے کی کوشش نہیں کی۔ سب کا رونا ہنسنا سانجھا تھا۔ سب کے دْکھ ایک جیسے تھےنہ کوئی غریب تھا نہ کوئی امیر، سب خوشحال تھے۔ کسی کسی گھر میں بلیک اینڈ وہائٹ ٹی وی ہوتا تھا اور سارے محلے کے بچے وہیں جاکر ڈرامے دیکھتے تھے کاش پھر وہ دن اور زمانہ پھر لوٹ آ جائے.