ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھائیں تھیں۔۔ اور سچ بھی کر دکھایا، بیوی کے انتقال کے بعد اس کا ہاتھ تھاما تو شوہر کا بھی انتقال یو گیا
لوگ کہتے ہیں کہ شادی کے بعد میاں بیوی میں وہ محبت یا سلوک نہیں رہتا جو شادی سے پہلے ہوتا ہے لیکن یہ بات بالکل غلط ہے اور اس بات کو ہم یوں ثابت کر سکتے ہیں کہ ابھی حال ہی میں ایک واقعہ سننے میں آیا۔
جب ایک خاوند جس کا نام حاج محمد شفیق بتایا جاتا ہے انہیں معلوم ہوا کہ ان کی بیوی حاجن آمنہ بی بی کا انتقال ہو گیا ہے تو۔وہ بھاگے بھاگے گھر پہنچے اور بیوی کا آخری مرتبہ دیدار کیا اور اسی وقت انکا ہاتھ تھاما اور قدرتی طور پر یہ خود بھی انتقال کر گئے۔ جب ان دونوں کو دفنایا گیا تو گورکن کاشف نے پوچھا کہ ایک ہی دن وفات کیسے ہو گئی۔
آپ کے عزیز وں کی، تو کسی رشتہ دار نے بتایا کہ جب ان کی شادی ہوئی تو انہوں نے ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھائیں تھیں۔یہی نہیں دونوں اپنی شادی شدہ زندگی سے خوش بھی بہت تھے۔ آپ یہاں یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کوئی نوجوان جوڑا ہو گا مگر ایسا نہیں ہے ان دونوں کی شادی کو 51 سال گزر چکے تھے جب ان دونوں کا انتقال ہوا اس کے علاوہ ان کے 2 بیٹے بھی ہیں جو اب یورپ میں کاروبار یا نوکری غرض سے رہتے ہیں۔اور اب ان دونوں میاں بیوی کی قبریں بھی یہاں میانی صاحب قبرستان میں ساتھ ہی ہیں۔
اس کے علاوہ اب اگر ہم بات کریں ایک اور سچے واقعے کی تو وہ کچھ یوں ہے کہ جب 7 سالہ بچی کا انتقال ہوا تو اسے والد نوکری کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم تھے۔تو وہ اپنی بچی کے جنازے میں آ نہیں سکے مگر ا نہیں سکون نہ ملا اور وہ کچھ وقت بعد ملک واپس آئے اور بچی کی قبر پر چلے گئے تو دیکھا ایک سائیڈ سے قبر بیٹھ چکی تھی جسے دوبارہ بنانے کا گورکن کو کہا۔
جس پر بچی کا بچی کا تھوڑا سا کفن نظر آیا اور والد نے کہنے پر اسے بچی کا چہرہ دیکھا دیا گیا ۔ جب چہر ہ دیکھایا گیا تو بچی کا کفن نہ تو میلا تھ اور نہ ہی چہرے کو کچھ ہوا تھا بلکہ بچی کی قبر سے خوشبو آ رہی تھی۔
بچی کا قبر میں یوں اچھا حال دیکھنے کے بعد گورکن نے حیرانی سے پوچھا کہ یہ سب کیسے ممکن ہے؟ تو والد نے اطمینان بخش انداز میں کہا میری بچی بہت معصوم تھی کسی سے لڑائی جگڑا نہیں کرتی تھی۔مزید یہ کہ بچے تو ہوتے ہی معصوم ہیں انہوں نے کون سا کوئی اس عمر میں گناہ کیا ہوتا ہے جو ان پر قبر کا عذاب مسلط ہوگا اور بچے ویسے بھی اللہ پاک کے بہت قریب ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ یہاں یہ بتا دینا بھی بہت ضروری ہے کہ یہ دونوں واقعات لاہور کے سب سے بڑے اور مشہور قبرستان میانی صاحب کے ہیں۔یہاں میانی صاحب کا نام سننے کے بعد آپ سوچ رہے ہوں گے اس طرح کے واقعات میانی صاحب کے ہی کیوں ہوتے ہیں اور ہر بار کسی الگ گورکن کا نا م ہی کیوں بتایا جاتا ہے ؟ کہ یہ یہاں کام کرتے ہیں ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ۔
میانی صاحب قبرستان لاہور کا سب سے بڑا قبرستان ہے ارو ہر فرد کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ میں یہاں ہی دفن ہوں اس لیے بہت سے واقعات اس لیے کہ بہت سے سچے واقعات اس سے منسوب ہیں۔
اور انتہائی بڑا قبرستان ہونے کی وجہ سے اس کا ہر ایک حصہ ایک گورکن کو دے دیا گیا ہے، وہی ہی وہآں قبریں دیکھتا اور صاف صفائی کرتا ہے۔ اس وجہ سے ہمیشہ ایک نئے گورکن کا نام آپ کو سننے کو ملتا ہے۔