فرمان مصطفٰے ﷺ ہےعنقریب میری امّت پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ پانچ سے محبت رکھیں گے اور پانچ کو بھول جائیں گے جانیے
فرمان مصطفٰےﷺ ہے: ’’سَیَأْتِیْ زَمَانٌ عَلٰی اُمَّتِیْ یُحِبُّوْنَ خَمْسًا وَ یَنْسَوْنَ خَمْسًا‘‘ عنقریب میری امّت پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ پانچ سے محبت رکھیں گے اور پانچ کو بھول جائیں گے۔ 1. یُحِبُّوْنَ الدُّنۡیَا وَ یَنْسَوْنَ الْاٰخِرَةَ دنیا سے محبت رکھیں گے اور آخِرت کو بھول جائیں گے۔ 2. وَیُحِبُّوْنَ الْمَالَ وَ یَنْسَوْنَ الْحِسَابَ مال سے محبت رکھیں گے اور حسابِ (آخرت) کو بھول جائیں گے۔ 3. وَیُحِبُّوْنَ الْخَـلْقَ وَیَنْسَوْنَ الْخَـالِـقَ مخلوق سے محبت رکھیں گے
اورخالِق کو بھول جائیں گے۔ 4. وَیُحِبّوْنَ الذُّنُوْبَ وَیَنْسَوْنَ التَّوْبَةَ گن-اہوں سے محبت رکھیں گے اور تو-بہ کوبھول جائیں گے۔ 5. وَ یُحِبُّوْنَ الْقُصُوْرَ وَیَنْسَوْنَ الْمَقْبَرَةَ محلَّات سے محبت رکھیں گے اورقب-رِستان کو بھول جائیں گے۔ دورِ حاضر قی-امت کی نشانیوں اور اس سے پہلے رونما ہونے والے بے شمار فت-نوں سے لبریز ہے۔ ہر نیا دن نئی علامت قی-امت اور نت نئے فت-نے کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ یہ کتنی بڑی س-تم ظریفی ہے کہ جس امت کے حقیقی خیر خواہ حضور نبی کریم ﷺ اپنی حیات ِ ظاہری میں دورِ فت-ن کی ہول-ناک-یوں کے بارے میں فکر مند رہا کرتے تھے کہ آزمائشوں، پریشانیوں اور فت-نوں کے اس ہول-ناک زمانہ میں میری امت کہیں راہِ حق سے برگشتہ نہ ہوجائے آج اسی امت کے افراد ان فت-نوں میں پڑ کر اپنے ہی ہاتھوں دین و دیانت، حق و امانت اور باہمی محبت وشرافت کا بے دریغ ق-ت-لِ عام کر رہے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے
کہ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے بھائیوں اور بہنوں تک رحمتِ عالم ﷺ کے وہ ارشادات پہنچائے جائیں جن میں پیارے آقا ﷺ نے ”ایک زمانہ ایسا آئے گا“ ”قربِ قی-امت کی نشانیوں میں سے ہے“ ”قی-امت اس وقت تک قائم نہ ہوگی“یا اس جیسے دیگر الفاظ ارشاد فرما کر اللہ پاک کی طرف سے عطا کردہ اپنے علم کے ذریعے 14 سو سال پہلے ہی اس موجودہ اور آیندہ دور کے فت-نوں کی پیشن گوئی فرماتے ہوئے ہمیں ان کی بھڑکتی آ-گ سے اُٹھنے والے شراروں سے اپنا دامن بچانے کی ترغیب دلائی۔ آئیے برکت و عبرت حاصل کرنے کے لئے چند احادیث مبارکہ اور ان کی شرح و وضاحت میں علماء کرام رحمہم اللّٰہ السّلام کے ارشادات ملاحظہ فرمائیے۔ گھروالوں کے ہاتھوں ہل-اکت سیّد المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس شخص کے سوا کسی دین والے کا دین محفوظ نہ رہے گا جواپنے دین کو لے کر ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ اور ایک سوراخ سے دوسرے سوراخ کی طرف بھاگے۔
اس وقت معیشت کا حصول اللہ پاک کو ناراض کیے بغیر نہ ہوگا۔ جب یہ صورتِ حال ہوگی تو آدمی اپنے بیوی بچوں کے ہاتھوں ہل-اکت میں پڑجائے گا، اگر بیوی بچے نہ ہوں گے تو والدین کے ہاتھوں اس کی ہل-اکت ہوگی اور اگر والدین بھی نہ ہوں تو اس کی ہلاکت رشتے داروں یا پڑوسیوں کے ہاتھوں ہوگی۔‘‘صحابہ کرام علیہِم الرِضوان نے عرض کی: ’’ یارسولَ اللہ ﷺ ! یہ کیسے ہوگا؟‘‘ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’وہ اسے تنگیِ معیشت پر عار دلائیں گے، ا س وقت وہ اپنے آپ کو ہل-اکت کی جگہوں میں لے جائے گا۔‘‘ حدیث پاک سے حاصل ہونے والا سبق اس حدیث پاک پر خصوصاً وہ بہنیں غور کریں جو اپنے شوہروں کو ان کی آمدنی پرطرح طرح کے طعنے دیتے ہوئے اس طرح کی جلی کٹی باتیں سناتی ہیں: ’’فُلاں نے اتنا بڑا مکان بنالیا، فُلاں کتنا خوشحال ہو گیا ہے ، تم بھی تو کچھ کرو، تمہاری تنخواہ تو انتہائی نامعقول ہے اس میں تو گھر کے اخراجات ہی پورے نہیں ہوتے وغیرہ وغیرہ۔‘‘ نیز شوہر ملازمت و کاروبار سے جیسے ہی تھکا ہارا گھر آتا ہے
اپنی فرمائشوں اور بچوں کی شکایتوں کے انبار لگا کر اس کو مالی حالات سے بیزار اور ذہنی اذیت میں گرف-تار کردیتیں ہیں۔ نتیجۃً بے چارہ شوہر ان کے طعنوں سے بچنے اور ان کی بے جا فرمائشیں پوری کرنے کے لئے حلال و حرام کی پروا کئے بغیرحُصولِ مال کے وبال میں پھنس کر بادلِ نخواستہ ناجائز ذرائع اختیار کر بیٹھتا ہے۔ جیسا کہ آیَندہ زمانے میں سراٹھانے والے فت-نوں کے بارے میں ایک حدیث شریف یہ بھی ہے۔ حلال و حرام کے معاملے میں بے پروائی حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ سیِّدعالم ﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی کو اس بات کی کوئی پروا نہ ہوگی کہ اس نے کہاں سے حاصل کیا حرام سے یا حلال سے۔‘‘ حکیم الامّت مفتی احمد یار خان عَلَیہ رحمۃ الحَنان اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: ’’یعنی آخر زمانہ میں لوگ دین سے بے پروا ہو جائیں گے ، پیٹ کی فکر میں ہر طرح پھنس جائیں گے، آمدنی بڑھانے، مال جمع کرنے کی فکر کریں گے، ہر حرام وحلال لینے پر دلیر ہو جائیں گے جیسا کہ آج کل عام ہے۔‘
‘ مالِ حرام کا وبال پیارے بھائیو! زرقِ حلال کھانے اور لقمۂ حرام سے خود کو اور اپنے بیوی بچوں کو بچانے کے لئے علمِ دین سیکھنا اور حلال و حرام کا فرق جاننا نہایت ضروری ہے ۔ یاد رکھئے !اگر ماں باپ ، بہن بھائی ، بیوی بچوں یا قرابت داروں کی بے جا خواہشات پوری کرنے اور ان کے طعنوں سے بچنے کے لئے حرام وحلال کی پروا کئے بغیر مال و دولت جمع کرتے رہے اور علمِ دین سیکھ کر سنّتوں کے مطابق ان کی تربیت نہ کی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ کل بروزِ قی-امت یہی بیوی بچے آپ کے خلاف بارگاہِ الٰہی میں مقدمہ کردیں جیساکہ بارگاہِ الٰہی میں دعویٰ حضرت فقیہ ابوللَّیث سَمر قندی علَیہ رحمۃ اللّٰہ القوی نقل کرتے ہیں: مروی ہے کہ مرد سے تعلق رکھنے والوں میں پہلے اس کی زوجہ اور اس کی اولاد ہے، یہ سب اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کریں گے کہ اے ہمارے ربّ پاک! ہمیں اِس شخص سے ہمارا حق دِلا، کیونکہ اِس نے کبھی ہمیں دینی اُمور کی تعلیم نہیں دی اور یہ ہمیں حرام کھلاتا تھا
جس کا ہمیں علم نہ تھا۔ پھر اس شخص کو حرام کمانے پر اس قَدَر ماراجائے گا کہ اس کا گو-شت جَھڑجائے گا پھر اس کو میزان کے پاس لایا جائے گا، فرشتے پہاڑ کے برابر اس کی نیکیاں لائیں گے تو اس کے عیال میں سے ایک شخص آگے بڑھ کر کہے گا: ’’میری نیکیاں کم ہیں‘‘ تو وہ اُس کی نیکیوں میں سے لے لے گا، پھردوسرا آکر کہے گا: ’’تُو نے مجھے سُو-د کھلایا تھا‘‘ اور اُس کی نیکیوں میں سے لے لے گا، اِس طرح اُس کے گھر والے اس کی سب نیکیاں لے جائیں گے اور وہ اپنے اہل وعیال کی طرف حسرت ویاس سے دیکھ کر کہے گا: ’’اب میری گردن پر وہ گن-اہ و مظ-الم رہ گئے جو میں نے تمہارے لئے کئے تھے۔‘‘ فرشتے کہیں گے: ’’یہ وہ شخص ہے جس کی نیکیاں اِس کے گھر والے لے گئے اور یہ اُن کی وجہ سے جہ-نم میں چلاگیا۔‘‘ بد نصیبی غور کیجئے! اس شخص کی بد نصیبی کا کیا عالم ہو گا
جس کی تمام نیکیاں اس کے اہلِ خانہ حاصل کر کے نجات پا جائیں اور وہ خود قلّاش رہ جائے۔ لہٰذاموقع غنیمت جانتے ہوئے خوابِ غفلت سے بیدار ہو جائیے اور اللہ پاک اوراس کے پیارے حبیب ﷺ کی فرماں برداری والے کاموں میں لگ جائیے۔