نبیﷺ نےفرمایا: کہ حجرِاسود پانی میں ڈوبےگا نہیں اورآ-گ میں گرم نہیں ہوگا
نبیﷺ نےفرمایا: کہ حجرِاسود پانی میں ڈوبےگا نہیں اورآ-گ میں گرم نہیں ہوگا
نبیﷺ نےفرمایا: کہ حجرِاسود پانی میں ڈوبےگا نہیں اورآگ میں گرم نہیں ہوگا
بی کیونیوز! یہ واقعہ حجرِاسود کا ہے۔ آپ کو علم ہے نا کہ یہ سیاہ پتھر چاندی کے ایک فریم میں خانہ کعبہ میں نصب ہے۔ طواف (عمرہ یا حج) کے دوران ہم اس کو بوسہ دیتے ہیں۔ یہ روایت بہت پرانی ہے اور ہمارے پیارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کو بوسہ دیا تھا اور جب حضرت عمرؓ طواف کررہے تھے. تو آپ نے حجر اسود کو بوسہ دینے سے پہلے فرمایا تھا. کہ انھیں علم تھا کہ وہ صرف ایک
پتھر ہے اور کچھ نہیں مگر چونکہ رسول ؐنے بوسہ دیا تھا صرف اس وجہ سے وہ بھی اس کو بوسہ دے رہے ہیں۔ حجر اسود کی واپسی۔ ایک تاریخی واقعہ۔ذی الحجہ 317 ھ کو بحرین کے حاکم ابو طاہر سلیمان قرامطی نے مکہ معظمہ پر قبضہ کرلیا۔ خ-و-ف کا یہ عالم تھا کہ اس سال حج بیت اللہ نہ ہوسکا، کوئی بھی شخص عرفات نہ جاسکا۔ یہ اسلام میں پہلا ایسا موقع تھا کہ حج بیت اللہ موقوف ہوگیا، اسی ابوطاہر قرامطی نے حجر اسود کو بیت اللہ سے نکالا اور اپنےساتھ بحرین لے گیا۔ پھر بنو عباس کے خلیفہ مقتدر باللہ نے ابوطاہر کے ساتھ معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا اور تیس ہزار دینار دیئے اور حجر اسود خانہ کعبہ کو واپس کیا گیا۔ یہ واپسی 339 ھ کو ہوئی، گویا بائیس سال تک خانہ کعبہ حجر اسود سے خالی رہا۔ جب فیصلہ ہوا کہ حجراسود کو واپس کیا جائے گا تو اس سلسلے میں خلیفہ وقت نے ایک بڑے
عالم محدث عبداللہ کو حجراسود کی وصولی کے لئے ایک وفد کے ساتھ بحرین بھجوایا۔ یہ واقعہ علامہ سیوطی کی روایت سے اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ جب شیخ عبداللہ بحرین پہنچے تو بحرین کے حاکم نے ایک تقریب کا اہتمام کیا جہاں حجر اسود کو اُن کے حوالہ کیا جائے گا۔ اب انہوں نے ایک پتھر جو خوشبودار تھا ، خوبصورت غلاف سے نکالا کہ یہ حجر اسود ہے اسے لے جائیں۔ محدث عبداللہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ حجر اسود میں دو نشانیاں ہیں اگر اس میں
یہ نشانیاں پائی جائیں تو یہ حجر اسود ہوگا ورنہ نہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ ڈوبتا نہیں ہے، دوسری یہ کہ آ-گ سے بھی گرم نہیں ہوتا۔ اس پتھر کو جب پانی میں ڈالا گیا تو ڈوب گیا پھر آ-گ میں اسے ڈالا گیا تو سخت گرم ہوگیا یہاں تک کہ پھٹ گیا۔ محدث عبداللہ نے فرمایا یہ ہمارا حجر اسود نہیں ۔ پھر دوسرا پتھر لایا گیا اس کے ساتھ بھی یہی عمل ہوا اور وہ
پانی میں ڈوب گیا اور آ-گ پر گرم ہوگیا، فرمایا کہ ہم اصل حجر اسود ہی لیں گے۔ پھر اصل حجراسود لایا گیا اور آ-گ میں ڈالا گیا تو ٹھنڈا نکلا پھر پانی میں ڈالا گیا تو وہ پھول کی طرح پانی کے اوپر تیرنے لگا تو محدث عبداللہ نے فرمایا، ’’یہی ہمارا حجراسود ہے اوریہی خانہ کعبہ کی زینت ہے اور یہی جنت والا پتھر ہے‘‘۔ اس وقت ابوطاہر قرامطی نے تعجب کیا اور پوچھا کہ یہ باتیں آپ کو کہاں سے ملی ہیں ؟تو محدث عبداللہ نے فرمایا: یہ باتیں ہمیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی ہیں کہ حجر اسود پانی
میں ڈوبے گا نہیں اور آ-گ سے گرم نہیں ہوگا۔ ابوطاہر نے کہا کہ یہ دین روایات سے بڑا مضبوط ہے۔ جب حجر اسود مسلمانوں کو مل گیا تو اسے ایک کمزور اونٹنی کے اوپر لادا گیا جس نے تیزرفتاری کے ساتھ اسے خانہ کعبہ پہنچا یا، اس اونٹنی میں زبردست قوّت آگئی. اس لئے کہ حجراسود اپنے مرکز (بیت اللہ) کی طرف جارہا تھا لیکن جب اسے خانہ کعبہ سے نکالا گیا تھا اور بحرین لے جارہے تھے تو جس اونٹ پر لادا جاتا وہ جانبر نہ ہو سکتا حتیٰ کہ بحرین پہنچنے تک چالیس اونٹ اس کے نیچے جان سےگئے۔‘‘