حضرت آدم علیہ السلام
اللہ تعالی نے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے کم و بیش ایک لاکھ، چوبیس ہزار انبیاء علیہم السّلام کو مبعوث فرمایا۔ انبیائے کرامؑ کی بعثت کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السّلام سے شروع ہوا اور اس مبارک سلسلے کا اختتام، حضرت محمّدﷺ کی ذاتِ اقدس پر ہوا کہ آپﷺ خاتم النبیّین ہیں۔ قرآنِ کریم میں متعدد انبیائے کرامؑ کے اسمائے گرامی مذکور ہیں، جب کہ بعض انبیائے کرامؑ کے نام احادیثِ مبارکہ میں بھی ملتے ہیں
ان برگزیدہ ہستیوں نے ایک طرف لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے پیغام سے رُوشناس کروایا، تو دوسری طرف خود کو نمونے کے طور پر پیش کیا تاکہ اُن کی پیروی سے دنیاو آخرت میں کام یابی حاصل کی جا سکے۔ جنگ،’’ سنڈے میگزین‘‘ اپنی روایات کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے آج سے ان مقدّس اور پاک باز ہستیوں کے مُشک بار تذکرے پر مشتمل ایک نئے سلسلے’’ قصص الانبیاء ؑ‘‘ کے آغاز کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ اُمید ہے، قارئین حسبِ سابق ہمارے اس سلسلے کو پسند کرتے ہوئے، اپنی قیمتی آرا سے نوازتے رہیں گے۔ ایک بات ذہن نشین رہے کہ یہ کوئی تحقیقی مضامین نہیں، بلکہ عام فہم انداز میں انبیائے کرام علیہم السّلام کے ایمان افروز قصص و واقعات اور حالاتِ زندگی پیش کرنے کی ایک کوشش ہے۔آسمانِ دنیا کی گہما گہمی کسی بڑی خبر کی نوید سُنا رہی تھی۔جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا، تسبیح و تہلیل میں مصروف فرشتوں کے تجسّس اور بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
نظریں بیت المعمور پر تھیں اور کان، اللہ کی پکار کے منتظر۔ بالآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور ربّ ِ ذوالجلال کا حکم فضا میں بلند ہوا۔ترجمہ:’’مَیں زمین پر اپنا نائب بنانے والا ہوں۔‘‘فرشتے اس فیصلے پر حیران تھے اور متعجّب بھی۔ اُن کا خیال تھا کہ جنّات کی طرح یہ بھی زمین پر لڑائی جھگڑا اور فساد کریں گے،چناں چہ اُنہوں نے اس فیصلے کی حکمت معلوم کرنے کی غرض سے ڈرتے ڈرتے عرض کیا’’(اے ہمارے ربّ)ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے، جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے؟اور ہم تیری تسبیح، حمد اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں۔‘‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’جو میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے‘‘(البقرہ 30)۔تخلیقِ آدم علیہ السّلاماللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیلؑ کو حکم دیا کہ کرّۂ ارض سے مٹّی لے کر آئو۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو ایک مُٹھی خاک سے پیدا فرمایا۔
یہ مٹّی تمام روئے زمین سے حاصل کی گئی تھی۔یہی وجہ ہے کہ حضرت آدمؑ کی نسل میں مختلف رنگ و زبان کے لوگ پائے جاتے ہیں‘‘(ابو دائود،ترمذی)۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ’’ جب اللہ نے آدمؑ کو پیدا فرمایا اور اُن میں رُوح پھونکی، تو اُن کو چھینک آئی، جس پر اُنہوں نے’’الحمدُ للہ‘‘کہا۔ یوں سب سے پہلے اُن کے منہ سے اللہ کی حمد نکلی، پھر اللہ نے برحمک ربک فرمایا(ابنِ حبان)۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو چار عظیم شرف اور مرتبے عطا فرمائے۔(1)اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا(2) رُوح پھونکی(3)فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم فرمایا(4)اشیاء کے ناموں کے علم سے سرفراز فرمایا۔فرشتوں کو حکمِ سجدہاللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو تمام نام سِکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا’’اگر تم سچّے ہو ،تو ان چیزوں کے نام بتائو۔‘‘اُنھوں نے کہا’’ اے اللہ!تیری ذات پاک ہے۔
ہمیں علم نہیں، سوائے اس کے، جو تُو نے ہم کو سِکھایا ہے۔بے شک آپ بڑے علم و حکمت والے ہیں۔’’پھر اللہ نے حضرت آدمؑ کو حکم دیا کہ ’’ان چیزوں کے نام بتا دو‘‘،سو اُنہوں نے ان سب چیزوں کے نام بتادیئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’(دیکھو)میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں زمین و آسمان کی تمام پوشیدہ چیزوں سے واقف ہوں۔میں ان باتوں کو بھی جانتا ہوں، جن کو تم ظاہر کر دیتے ہو اور جن کو تم دل میں رکھتے ہو‘‘(البقرہ 33,32,31)۔حق تعالیٰ نے تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ’’آدمؑ کو سجدہ کرو، تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔ اُس نے انکار کر دیا اور تکبّر کیا اور وہ کافروں میں ہو گیا‘‘(البقرہ 34)۔اللہ نے ابلیس سے پوچھا،’’ جب میں نے تجھ کو حکم دیا تھا، تو کس چیز نے تجھ کو سجدے سے باز رکھا؟‘‘اُس نے کہا ’’میں اِس سے افضل ہوں۔ تُو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اِسے خاک سے۔‘‘اللہ نے فرمایا’’ تو بہشت سے اُتر جا۔ تجھے حق نہیں
کہ تو یہاں رہ کر غرور کرے، پس نکل جا۔ بے شک تو ذلیلوں میں سے ہے۔‘‘اُس نے کہا’’ مجھے اُس دن تک مہلت عطا فرمایئے، جس دن قیامت آئے گی۔‘‘اللہ نے شیطان کو مہلت عطا فر دی، تو اُس نے کہا’’ اب میں تیرے بندوں کو قیامت تک بہکائوں گا۔ آگے سے، پیچھے سے، دائیں سے بائیں سے۔‘‘اللہ نے فرمایا’’ جو لوگ تیری پیروی کریں گے، میں تجھ سمیت ان سب سے جہنّم بھر دوں گا۔‘‘(اعراف 11سے 18)ابلیس کی حقیقتابلیس اور شیطان ایک ہی صفت اور حقیقت کے دو ایسے نام ہیں کہ جس کا کام اللہ کے بندوں کو ورغلانا،شر پھیلانا اُنہیں اللہ سے باغی کر کے برائی کے کاموں کی جانب راغب کرنا ہے۔یہ انسان کا وہ ازلی دشمن ہے، جو قیامت تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ’’ فرشتے نور سےآدم مٹّی سے اور ابلیس آگ سے پیدا کیا گیا ۔‘‘حضرت عبداللہ بن عُمرؓ فرماتے ہیں کہ’’ جنّات، حضرت آدمؑ سے دو ہزار سال پہلے سے دنیا میں آباد تھے
جنہوں نے دنیا میں دنگا فساد مچا رکھا تھا، چناں چہ اللہ نے فرشتوں کے ایک لشکر کو دنیا میں روانہ کیا، جنہوں نے ان جنّات کو مار مار کر سمندری جزیروں اور ویران علاقوں میں بھگا دیا۔‘‘ حضرت سعید بن منصورؒ کا قول ہے کہ’’ اس موقعے پر بہت سے جنّات قتل کیے گئے اور کچھ گرفتار بھی ہوئے۔ان ہی میں ابلیس بھی تھا، جو ابھی بچّہ تھا۔ اُسے آسمان پر لا کر رکھا گیا۔یہ فرشتوں کے ساتھ عبادت میں مصروف ہو گیا اور بہت جلد علوم کا ماہر اور عبادت گزار بن گیا۔ چناں چہ اسے آسمانوں میں ’’معلم الملکوت‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’ابلیس آسمانوں میں فرشتوں کا سردار بن گیا تھا۔‘‘حضرت ابنِ عباسؓ نے فرمایا کہ ’’ابلیس کا نام، ’’عزازیل‘‘ تھا۔ ‘‘سورۃ الکہف، آیت 50میں بھی اللہ نے فرمایا کہ ’’ابلیس، جنّات میں سے تھا۔‘‘تفسیر ابنِ جوزی میں حضرت عبداللہ بن عبّاسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا
شیطان آدمی کے جسم میں خون کی طرح سرایت کر جاتا ہے۔‘‘ بندے کا دل اس کا خاص ٹھکانا ہے۔ تاہم، شیطان کو اتنی قوّت حاصل نہیں ہے کہ وہ انسان کو راہِ حق سے زبردستی ہٹا دے۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ لوگوں کے دِلوں میں وسوسے اور بُرے خیالات ڈال کر اُنہیں برائی کی طرف راغب کرتا رہتا ہے اور یہی بندوں کا امتحان ہے۔حضرت آدمؑ و حوّاؑ جنّت میںیوں تو جنّت میں تمام آسائشیں، نعمتیں موجود تھیں، لیکن اس کے باوجود حضرت آدمؑ تنہائی اور اجنبیت محسوس کرتے تھے۔چناں چہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی تنہائی دُور کرنے کا بندوبست فرماتے ہوئے حضرت حوّاؑ کو پیدا کر دیا۔ محمّد بن اسحاق، حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ’’ حضرت حوّاؑ کو حضرت آدمؑ کی بائیں طرف کی چھوٹی پسلی سے پیدا کیا گیا، جب کہ وہ سو رہے تھے۔‘‘پھر اللہ نے حضرت آدم ؑ کو حکم فرمایا کہ وہ اور اُن کی بیوی جنّت میں سکونت فرمائیںاور فرمایا ’’جہاں سے چاہو، بِلاروک ٹوک کھائو، لیکن اس درخت کے پاس نہ
جاناورنہ ظالموں میں سے ہو جائو گے‘‘ (البقرہ35:)۔ حضرت آدمؑ اور حضرت حوّاؑ بڑے آرام و سکون سے جنّت میں رہنے لگے۔روایت میں ہے کہ حضرت آدمؑ سو سال یا ساٹھ سال جنّت میں رہے۔ اس عرصے میں دونوں پر جنّت کے کسی بھی حصّے میں جانے پر پابندی نہ تھی، سوائے شجرِ ممنوعہ کے۔ شیطان اب ان دونوں کا کُھلا دشمن تھا اوراپنی سزا کا بدلہ لینے کے لیے بے قرار بھی۔ اس کی شدید خواہش تھی کہ یہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کریں۔ پھر شیطان نے اُن دونوں کے دِلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ اُن کی شرم گاہیں، جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھیں، بے پردہ ہو جائیں۔ اُس نے اُنھیں کہا’’ تمہارے ربّ نے تم دونوں کو اس درخت سے اس لیے منع فرمایا کہ کہیں یہ پھل کھا کر تم دونوں فرشتے نہ ہو جائو یا کہیں ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے ہو جائو‘‘(الاعراف)۔ شیطان کی ان باتوں نے حضرت حوّاؑ کو سوچنے پر مجبور کر دیا اور پھر شیطان کی مسلسل اور تواتر کے ساتھ سازشیں رنگ لائیں اور اس نے حضرت حوّاؑ کو پھل کھانے پر راضی کر لیا۔ ایک دن حضرت حوّاؑ نے حضرت آدمؑ سے کہا کہ’’ ہم اس شجرِ ممنوعہ کا ذرا سا حصّہ کھا کر تو دیکھیں،آخر وہ کیا راز ہے، جو اللہ نے اسے کھانے سے منع فرمایا ہے۔
شروع میں تو حضرت آدمؑ اس کے لیے قطعی طور پر تیار نہ تھے، لیکن پھر حضرت حوّاؑ کے مسلسل اصرار پر بادلِ نخواستہ وہ بھی راضی ہو گئے۔ ابھی ان دونوں نے پھل کو پورے طور پر چکّھا بھی نہ تھا کہ اُن کی سترگاہیں ایک دوسرے پر عیاں ہو گئیں، جس پر دونوں بدحواسی اور پریشانی میں جنّت کے درختوں کے پتّے توڑ توڑ کر اپنا بدن چُھپانے لگے۔ اللہ نے دونوں کو پکارا اور فرمایا ’’کیا میں نے تم کو منع نہیں کیا تھا کہ اس درخت کا پھل نہ کھانا اور شیطان کے وَرغلانے میں نہ آنا، یہ تمہارا کُھلا دشمن ہے‘‘(الاعراف)۔دونوں نے جب اللہ کی پکار سُنی، تو مارے خوفِ الٰہی کے کانپ اٹھے۔نہایت لاچارگی اور عاجزی سے اپنی خطا پر نادم و شرمندہ ہوتے ہوئے بارگاہِ خداوندی میں عرض کیا’’اے ہمارے ربّ! ہم دونوں سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے، اب اگر آپ نے ہم پر رحم وکرم نہ کیا اور معاف نہ فرمایا، تو ہم تباہ و برباد ہو جائیں گے‘‘(الاعراف23)۔حق تعالیٰ نے فرمایا کہ’’ اب تم دونوں ایک خاص مدّت تک زمین ہی پر رہو گے، جہاں تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے اور وہاں ہی مرنا ہے اور اسی میں سے پھر پیدا ہونا ہے‘‘(الاعراف 25)۔چناں چہ دونوں کو زمین کی طرف روانہ کر دیا گیا۔حضرت آدمؑ و حواؑ زمین پرروایت میں ہے کہ حضرت آدمؑ کو ہند، حضرت حوّاؑ کو جدّہ اور ابلیس کو بصرہ سے چند میل کے فاصلے پر، دمستیمان کے مقام پر اُتارا گیا
حضرت سدیؒ فرماتے ہیں کہ’’ جب حضرت آدمؑ جنّت سے ہند میں اُترے، تو اُن کے پاس حجرِ اسود تھا اور جنّت کے درختوں کے پتّوں کی ایک مُٹھی بھی تھی۔پھر حضرت آدمؑ نے ان پتّوں کو زمین پر پھیلا دیا اور یہ خُوش بُودار درخت اُن پتّوں ہی کی پیداوار ہیں۔‘‘حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ’’ حضرت جبرائیلؑ، حضرت آدمؑ کے پاس آئے اور گندم کے سات دانے ساتھ لائے۔حضرت آدمؑ نے پوچھا’’ یہ کیا ہے؟‘‘،عرض کیا’’یہ اُس درخت کا پھل ہے، جس سے آپ کو روکا گیا تھا، لیکن آپ نے تناول کر لیا تھا۔‘‘فرمایا’’ تو اب میں اس کا کیا کروں؟‘‘، عرض کیا’’ ان کو زمین میں بو دیجیے۔‘‘حضرت آدمؑ نے بو دیئے اور وہ دانے وزن میں ان دنیا کے دانوں سے لاکھ درجے زیادہ تھے، وہ دانے اُگے، حضرت آدمؑ نے فصل کاٹی، پھر دانوں کو (بھوسی) سے جدا کیا۔پھر صفائی کی، اُسے پیس کر آٹا گوندھا اور روٹی پکائی۔ اس طرح محنت و مشقّت کے بعد اسے کھایا‘‘ (قصص القرآن۔ابنِ کثیر)۔توبہ کی قبولیت اور زمین پر ملاپحضرت آدمؑ زمین پر آنے کے بعد نہایت شرم سار اور افسردہ تھے، پھر حضرت حوّاؑ سے علیٰحدگی نے بھی سخت پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا۔ روایت میں ہے کہ آپ ایک طویل عرصے تک اللہ کے حضور گڑگڑاتے، فریاد کرتے اور آنسو بہاتے رہے
یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی اس گریہ وزاری پر رحم آ گیا اور پھر ایک دن حضرت جبرائیلؑ نے حضرت آدمؑ کے پاس آ کر اُنہیں اللہ کی جانب سے معافی کی نوید سُنائی۔حضرت آدمؑ خوشی سے سرشار بارگاہِ خداوندی میں سر بہ سجود ہو کر شُکر بجا لائے۔ پھر حضرت جبرائیلؑ اُنہیں لے کر مکّہ آئے، جہاں حضرت آدمؑ نے کعبہ شریف کی بنیاد رکھی اور حجرِ اسود کو کعبہ کی دیوار پر نصب فرمایا۔پھر اس کے گرد طواف کیا۔ طواف سے فارغ ہو کر حضرت جبرائیلؑ اُنہیں جبلِ عرفات پر لے گئے، جہاں حضرت حوّاؑ تشریف فرما تھیں، لیکن طویل عرصے کی جدائی اور حالات نے بہت سے جسمانی تغیرات پیدا کر دیئے تھے، چناں چہ دونوں ایک دوسرے کو پہچان نہ پائے، جس پر حضرت جبرائیلؑ نے دونوں کا تعارف کروایا۔ہابیل و قابیل کا قصّہحضرت آدمؑ اور حضرت حوّاؑ کی ملاقات کے بعد اللہ نے اُنہیں اولادِ کثیر سے نوازا۔ حضرت حوّاؑ جب اُمید سے ہوتیں، تو ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتے۔جب دوبارہ اُمید سے ہوتیں، تو پھر ایک لڑکا اور لڑکی ہوتے۔پہلے والے لڑکے کی شادی، دوسری مرتبہ والی لڑکی سے اور دوسرے والے لڑکے کی پہلی والی لڑکی سے شادی کر دی جاتی۔ چناں چہ پہلی مرتبہ قابیل اور اُن کی بہن اقلیمیا پیدا ہوئی۔ دوسری مرتبہ ہابیل اور اُن کی بہن یہودا پیدا ہوئی۔
حضرت آدمؑ نے اقلیمیا کی شادی ہابیل سے اور یہودا کی شادی قابیل سے کرنا چاہی، مگر قابیل نے یہودا سے شادی سے انکار کر دیا۔وہ اقلیمیا سے شادی کرنا چاہتا تھا، کیوں کہ وہ یہودا سے زیادہ خُوب صورت تھی۔حضرت آدمؑ نے ہرچند سمجھایا، لیکن وہ بہ ضد رہا۔آخر حضرت آدمؑ نے دونوں بیٹوں سے فرمایا کہ تم دونوں اپنی قربانی کوہِ صفا پر لے جائو، اللہ کے حکم سے آسمان سے آگ آئے گی، جو حق کا فیصلہ کر دے گی‘‘(روح المعانی)۔ دونوں اپنی قربانیوں کو لے کر جبلِ صفا پہنچے، چوں کہ ہابیل حق پر تھا، اس لیے اُس کی قربانی قبول کر لی گئی، اس پر قابیل، ہابیل کا جانی دشمن ہو گیا اور پھر ایک دن اُس نے ہابیل کو قتل کر ڈالا۔دنیا میں انسان کا پہلا قتل اور پہلی قبرہابیل کے قتل کے بعد قابیل کو یہ فکر لاحق ہو گئی کہ اُس کی لاش کیسے چُھپائے؟ وہ لاش کو کندھوں پر رکھ کر مارا مارا پِھرتا رہا۔ آخرکار اللہ نے ایک کوّے کے ذریعے اُسے بھائی کی لاش دفنانے کا طریقہ سِکھایاقرآنِ پاک میں ہے’’پھر اللہ نے ایک کوّے کو بھیجا، جو زمین کھودنے لگا تاکہ اُسے بتائے کہ بھائی کی لاش کو کیسے چُھپائے۔ کہنے لگا کہ افسوس میری حالت پر، کیا میں اس سے بھی گیا گزرا ہوں کہ اس کوّے کے برابر ہوتا اور اپنے بھائی کی لاش کو چُھپا دیتا۔ پھر وہ بہت پشیماں ہوا‘‘(المایدہ 31)۔حضرت آدمؑ کی وفاتحضرت آدمؑ کی وفات کا وقت آیا اور فرشتے گھر میں داخل ہوئے، تو آپ سمجھ گئے۔ اپنی اہلیہ، حضرت حوّاؑ اور اپنے بچّوں سے فرمایا کہ تم سب مجھے تنہا چھوڑ دو۔
اس کے بعد آپ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا میں مصروف ہو گئے۔فرشتوں نے رُوح قبض کی، پھر غسل دے کر کفن دیا، خُوش بُو لگائی، گڑھا کھود کر قبر بنائی۔حضرت جبرائیلؑ نے اُن کے بیٹے، حضرت شیثؑ کو نمازِ جنازہ پڑھنے کا طریقہ بتایا۔آپؑ نے نماز جنازہ پڑھائی۔عام طور پر تاریخی کتب میں حضرت آدمؑ کی عُمر مبارکہ 960سال بیان کی گئی ہے۔جنّتی اولاد اور جہنمی اولادمعراج کے سفر میں نبی کریمﷺ جب پہلے آسمان پر پہنچے، تو وہاں آپﷺ نے حضرت آدمؑ کو دیکھا، جن کے دائیں جانب بھی لوگوں کی جماعتیں تھیں اور بائیں جانب بھی۔آپﷺ نے دیکھا کہ حضرت آدمؑ جب دائیں جانب دیکھتے ہیں، تو ہنستے ہیں اور بائیں جانب دیکھتے ہیں، تو روتے ہیں۔آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جبرائیلؑ سے پوچھا’’ اے جبرائیلؑ! یہ کیا ہے؟‘‘اُنہوں نے کہا’’ یہ حضرت آدمؑ ہیں اور یہ اُن کی اولاد کی روحیں ہیں۔جب دائیں جانب دیکھتے ہیں، جو جنّتی ہیں، تو ہنستے ہیں اور جب بائیں جانب دیکھتے ہیں، جو جہنّمی ہیں، تو روتے ہیں‘‘(صحیح بخاری،صحیح مسلم)۔اسمِ محمدﷺ عرشِ معلّیٰ پرحضرت عُمرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ’’ جب حضرت آدمؑ سے لغزش ہو گئی، تو اُنہوں نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کیا
اے میرے پروردگار! میں آپ سے محمدﷺ کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ آپ میری مغفرت فرما دیں۔ اللہ ربّ العزّت نے فرمایا’’ تُو نے محمدﷺ کو کیسے جان لیا؟جب کہ میں نے اُن کو اب تک پیدا نہیں فرمایا۔‘‘حضرت آدمؑ نے عرض کیا’’اے پروردگار! جب آپ نے مجھے اپنے ہاتھوں سے پیدا فرمایا اور مجھ میں جان ڈالی، پھر میں نے اپنا سر اٹھایا تو عرش پر لکھا دیکھا ، لا الٰہ الا اللہ محمّد رسول اللہ، تو میں نے جان لیا کہ جس ذات کا نام، آپ نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے، اس سے بڑھ کر آپ کے نزدیک اور کوئی محبوب نہیں ہو سکتا۔‘‘تو اللہ نے فرمایا’’ اے آدمؑ! تو نے سچ کہا، وہ میرے نزدیک سب سے محبوب ہیں اور جب تُو نے اُن کے وسیلے سے مجھ سے مانگ لیا، تو پس میں نے تیری بخشش کر دی اور اگر محمّدﷺ نہ ہوتے، تو میں آپ کو بھی پیدا نہ کرتا‘‘(ابنِ کثیر)۔