حضرت آسیہ علیہ السلام کا واقعہ
حضرت آسیہ ؑنے اﷲ سے دعامانگی ’’اے میرے پروردگار! میرے لیے جنت میں گھر بنادے، مجھے فرعون اور اس کے بُرے عمل سے نجات بخش دے اور ظالم قوم سے چھٹکارا دِلا دے‘حضرت نوح علیہ السلام کے پوتے مصرام بن حام جس علاقے میں آباد ہوئے اس کا نام مصر پڑ گیا۔ یہاں قبطی قوم پروان چڑھی اور فرعونوں کی حکمرانی ہو گئی۔
پھر جب حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے حاکم بنے تو ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے باقی بیٹوں سمیت مصر منتقل ہو گئے اورگوشن کے علاقے میں آباد ہوئے ۔انہیںبنی اسرائیل کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ فرعون رعمسیس دوم Ramases IIکو نجومیوں نے بتایا کہ’’ بنی اسرائیل میں اﷲ کا ایک نبی پیدا ہو گا جو تمہارے اقتدار کا خاتمہ کرے گا اور اسی کے ہاتھوں تمہیں موت آئے گی۔‘‘ فرعون نے اِس خطرے سے بچنے کی پیش بندی یوں کی کہ بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا۔ وہ اُن سے گھٹیا اور ادنیٰ کام کراتا’’اُن کے ہاں پیدا ہونے والے لڑکوں کو قتل کرا دیتا اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا۔‘‘(سورئہ بقرہ:49) اُسے معلوم نہ تھا کہ اﷲ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ’’
کمزوروں پر احسان کرکے اقتدار ان کے حوالے کرے۔ ‘‘ چنانچہ فرعون کو انجام تک پہنچانے والا بچہ بنی اسرائیل کے ہاں پیدا ہو کر رہا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام عمران اور والدہ کا ایارخا ( اِس نام کو یوکبد بھی کہا جاتا ہے)تھا۔ اُنہیں اندیشہ تھا کہ ظالم فرعون اُن کے بچے کو پیدا ہوتے ہی مروا دے گا۔ماں کواﷲ کی طرف سے پہلے ہی وحی آگئی’’بچے کو دودھ پلانا اور جب اُس کی جان کو خطرہ ہو تواُسے دریا میں ڈال دینا اور ڈر یا اندیشہ نہ رکھنا (سورئہ قصص:7) پھر اِرشاد ہوا کہ’’اِس نو مولود کو صندوق میں رکھو، صندوق کو دریا میں ڈال دو تو دریا اِسے کنارے پر ڈال دے گا،پھر اِس صندوق کو میرا اور تمہارا دشمن (فرعون ) اُٹھا لے گا ‘‘(سورئہ طٰہٰ:93)
حضرت موسیٰؑ کی والدہ کو یہ تسلی بھی دی گئی کہ’’ ہم اِس بچے کوتمہارے پاس لوٹا دیں گے اور اِسے اپنے رسولوں میں سے بنائیں گے۔‘‘ (سورۂ قصص:7)ایارخا نے اﷲ کے حکم کی پیروی کی ، ساتھ ہی اپنی بڑی بیٹی کلثمہ ( بعض روایات میںمریم )یعنی ’’ موسیٰ کی بہن سے کہا، اِس کے پیچھے پیچھے چلی جا ئو، چنانچہ وہ صندوق کو دور سے دیکھتی رہیں۔‘‘( سورئہ قصص:11 )جب بچے والا صندوق دریا ئے نیل کے بہاؤ پربہتا ہوا فرعون کے محل تک جا پہنچا
تو فرعون کی بیٹی اورباندیاں اُسے دیکھ کر بہت متعجب ہوئیں۔ اُنہوں نے اِسے دریا سے نکالااو ر ملکہ آسیہ (Bitihiah)کو پیش کیا۔ انہوں نے صندوق کا ڈھکنا کھولا تو ایک خوبصورت بچے کودیکھ کر بہت خو ش ہوئیں، فوراً بچے کو پالنے کا فیصلہ کر لیا۔فرعون نے بچے کوقتل کرنے کا حکم دیا تو وہ آڑے آ گئیں اور کہا ’’یہ بچہ میری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے،اِسے قتل نہ کرو،ہو سکتا ہے یہ ہمیں فائدہ پہنچانے کا باعث بنے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں۔‘‘ (سورئہ قصص:۹) فرعون نے کہا’’مجھے اِس کی ضرورت نہیں ،ہو سکتا ہے تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک بن جائے۔ ‘‘اِس طرح موسیٰؑ کی جان بچ گئی۔یہ خدائی اتفاق ہے کہ ملکہ آسیہ بنت مزاحم (Bitihiah) کا تعلق بھی بنی اسرائیل سے تھا،وہ دور کے رشتے میں حضرت موسیٰؑ کی پھوپھی بھی لگتی تھیں۔ اِس کے بعد رحمتِ خداوندی کا ایک اور کرشمہ ہوا۔
ﷲ کے حکم سے نومولود نے کسی بھی دایہ کا دودھ پینے سے انکار دیا ’’ہم نے موسیٰ پر دائیوں کے دودھ حرام کر دئیے(سورئہ قصص:12)محل والوں نے ایسی عورت کی تلاش شروع کر دی جس کا دودھ اِس بچے کو موافق آ جائے۔ تب موسیٰؑ کی بہن سامنے آ گئیں اور کہا’’کیا میں تمہیں ایسے اہل خانہ کی خبر نہ دوں جو تمہارے لیے اس بچے کو پالیں؟‘‘( سورئہ قصص: 12) ایارخا آئیںاور موسیٰؑ لپک کر اُن سے چِپک گئے۔ اِس طرح اللہ کے حکم سے وہ اپنے ہی بچے موسیٰؑ کی دایہ بن گئیں،اُن کے اور اُن کے کنبے کے لیے شاہی وظیفے مقرر ہو گئے ۔ حضرت موسیٰؑ فرعون کے محل میں پل کر جوان ہوئے ۔ اﷲ تعالیٰ نے اُنہیں اپنا نبی مقرر کیا۔یہ اُس وقت ہوا جب وہ مصر سے مدین چلے گئے۔ اِس واقعے میں بھی بعض روایات کے مطابق حضرت موسیٰ ؑ کو حضرت آسیہ ؑ کی مدد حاصل تھی۔ تفصیل کے مطابق جب حضرت موسیٰؑ سے قبطی مارا گیا
تو یہ سیدہ آسیہؑ ہی تھیں جن کی بروقت اطلاع اور مدد سے حضرت موسیٰ ؑ مصر سے جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے۔آسیہ ؑ(Bitihiah) حضرت موسیٰؑ کی پرورش کے دوران اُن کی نیک فطرت سے اچھی طرح واقف ہو چکی تھیں۔چنانچہ جب موسیٰؑ نے اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا اور فرعون کے جادو گروں اور ان کے جھوٹے سانپوں کو اپنے عصاسے شکست دی تو وہ فوراًایمان لے آئیں لیکن چونکہ اپنے شوہر رعمسیس کے مظالم کو بھی خوب جانتی تھیں اس لیے اپنے ایمان کا اظہار نہ کیا۔ایک دن وہ اپنی بیٹی کو کنگھی کر رہی تھیں کہ اُن کے منہ سے اﷲ کا نام نکل گیا۔ انہوں نے کہا تھا’’ بربادہو جو اس اﷲ کا انکار کرتا ہے جو میرا ،فرعون کا اور سب کا رب ہے ۔‘‘بیٹی بھی پکی کافر تھی اُس نے اپنے باپ فرعون کو خبر کر دی۔ فرعون نے ا ُنہیںطرح طرح کی اذیتیں دینا شروع کر دیں۔حضرت آسیہ ؑ کو دھوپ میں لٹا دیا جاتا ،
اُن پر سانپ چھوڑ دئیے جاتے۔وہ جواب دیتیں ’’میں موسیٰؑ اور ہارون ؑ کے رب پر ایمان رکھتی ہوں۔‘‘فرعون نے اُن کے کئی عزیز ذبح کرا دئیے لیکن انہوں نے پھر بھی فرعون کو رب نہ مانا۔آخر کارفرعون نے اُن کے ہاتھ پاؤں میںکیل گاڑ دئیے اور سینے پر بھاری چٹان گرادی۔ حضرت آسیہ ؑنے اﷲ سے دعامانگی ’’اے میرے پروردگار! میرے لیے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے بُرے عمل سے نجات بخش دے اور مجھے ظالم قوم سے چھٹکارا دِلا دے۔‘‘ (سورئہ تحریم:۱۱) روایات میں آیا ہے کہ حضرت موسی ٰ ؑیہ دلدوز منظر دیکھ رہے تھے اُنہوں نے بھی دُعا مانگی’’اے اﷲ !رنج ودرد آسیہ سے اُٹھا لے‘‘۔ اﷲتعالیٰ نے فرشتے بھیجے جنہوں نے حضرت آسیہؑ پراپنے پروں کا سایہ کیا،پھراُنہیں جنت میں محل دِکھایا ،وہ مسکرائیں اور اﷲ نے اُن کی روح کو اپنی طرف اُٹھا لیا۔ حضرت آسیہؑ(Bitihiah) کا شمار جنت کی سب سے زیادہ فضیلت رکھنے والی خواتین میں ہوگا۔
قرآنِ مجید کی سورئہ تحریم میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے دو پاک نبیوں حضرت نوحؑ اور حضرت لوط ؑکی بیویوں کی مثال بیان کی جو نیک بندوں کی بیویاںہونے کے باوجود کافر رہیں اورجہنم کا ایندھن بنیں گی۔ان کے ساتھ دو پاک دامن بیبیوں کا ذکر فرمایاجو اپنی اُمت کی مومنہ عورتوں کی سُرخیل ہوں گی۔ایک فرعون کی بیوی آسیہ ؑ جو فرعون جیسے کافر اور اﷲ کے نافرمان کی بیوی ہونے کے بادجود اﷲ پر ایمان لائیں، دوسری حضرت عیسیٰؑ کی والدہ مریم ؑبنت ِعمران۔ جب حضرت موسیٰؑ ایک طویل جدو جہد کے بعدغالب آئے تو رعمسیس ثانی انتقال کر چکا تھا اور اُس کا بیٹا منفتاح ثانی Meneptah II فرعون بن چکا تھا اور وہی اپنے لشکر سمیت دریائے نیل میں غرق ہوا۔