عاشقان عمران خان کے جذبات اتنے بھڑکائے جا چکے ہیں کہ اسلام آباد کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا سکتی ہے ۔۔۔۔۔اصل حالات قوم کے سامنے رکھ دیے گئے
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار امتیاز عالم اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔عمران خان اس وقت اپنی عوامی مقبولیت کے عروج پہ ہیں۔ ساڑھے تین برس کی حکومت کی بدترین کارکردگی کے باوجود ان کے جلسوں میں لوگوں کی شرکت اور جوش و خروش پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کے چاہنے والا
ہجوم انتہائی اقدام کو تیار ہے۔ عمران خان کا کرپشن مخالف بیانیہ بھی خوب بکا تھا اور اب امریکہ مخالف سازشی بیانیہ بھی بہت اثر انگیز ہے۔ ان کے مڈل کلاس حلقہ انتخاب کے لوگ مہنگائی کو بھول بھال کر پھر سے اپنے زخم خوردہ ہیرو کی کال پر متحرک ہوگئے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد وہ دوسرے وزیراعظم ہیں جو حکومت سے نکالے جانے کے باوجود مقبول ہیں۔ معاہدہ تاشقند کی پراسرار ”سازش“ کی طرح عمران خان نے اپنی حکومت کے خلاف مبینہ امریکی ”سازش“ کا زبردست استعمال کیا ہے اور امریکہ مخالف جذبات کو خوب بھڑکایا ہے۔ تاشقند کی ”سازش“ کا راز تو راز رہا، لیکن عمران خان کی ”امریکی سازش“ کی تھیوری کو وہ اب خود طشت از بام کیے جارہے ہیں۔ اپنے حالیہ بیان میں اپنے خلاف سازش کی اصل کہانی بیان کرتے ہوئے خان صاحب نے انکشاف کیا ہے کہ یہ سازش اس سال مارچ میں نہیں جولائی 2021ء میں پکنی شروع ہوئی تھی جس کے سدباب کے لیے وہ اپنے پسندیدہ آئی ایس آئی چیف جنرل فیض کو ان کے عہدے پر برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ یوں کہیے کہ جونہی آئی ایس آئی کی کمانڈ تبدیل ہوئی اور جس میں کافی بدمزگی ہوئی، عمران حکومت کے ہائبرڈ ڈھانچے کی بنیاد ہل گئی اور اسٹیبلشمنٹ کی نیوٹریلیٹی کے باعث عمران حکومت اپنی فراہم کردہ اکثریت اور اتحادیوں کی حمایت سے محروم ہوگئی۔ اور عمران خان میر جعفر اور میر صادق کی ”غداری“ کی شکایت لے کر عوام کے پاس چلے گئے۔ اچھی بھلی وسیع البنیاد حکومت کو ”امپورٹڈ حکومت“ قرار دے کر
وہ پھر سے ”چور ٹولے کی واپسی“ کے بیانیے پر پلٹ آئے ہیں۔ اب سازش کی طفلانہ کہانی کس کو یاد رہنی ہے، جس کا تڑکہ عمران خان کی نعرے بازی کی سیاست کو لگ چکا ہے۔ عمران خان نے اپنی حکومت کو جاتا دیکھ کر پاکستانی سفیر کی سفارتی چھٹی کو خوب استعمال کیا۔ بجائے اس کے کہ مہنگائی سے تنگ آئے عوام ان کی حکومت کے خلاف مظاہرے کررہے ہوتے، اُلٹا عمران خان نے نہایت ہوشیاری سے توپوں کا رُخ موڑ دیا اور لوگ سازش کے ٹرک کی بتی کے پیچھے چل پڑے۔ دوسری جانب اپوزیشن بجائے اسکے کہ سڑکوں پہ ہوتی (ماسوائے بلاول کے لانگ مارچ کے) آصف زرداری اور میاں نواز شریف نے ڈرائنگ روم سیاست سے عمران حکومت کو مات دے دی۔ یوں بہت قلیل مدت کی حکومت کے عوض پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی عمران حکومت کے چھوڑے ہوئے معاشی و انتظامی بحران کے ملبے کو اُٹھانے پہ تیار ہوگئیں۔ ابھی حکومت بنے چند روز ہی ہوئے ہیں کہ تحریک انصاف کے سابق نااہل وزرااپنی حکومت کے چھوڑے ہوئے ناکارہ اشاریوں کو شہباز حکومت کے سر منڈھنے کو جھپٹ پڑے ہیں۔ مریم نواز عمران خان کے توڑ کے لیے میدان میں تو اُتری ہیں لیکن ان کے پاس اب ”ووٹ کو عزت دو“ کا بیانیہ ہے نہ عوامی اپیل کا کوئی ایجنڈا۔ فقط عمران خان کو برا بھلا کہنے سے آپ پرو عمران اور اینٹی عمران تقسیم کو گہرا کررہے ہیں۔ سیاست کسی اگلے مرحلے میں چلی گئی ہے اور دونوں طرف کے سیاستدان اس سمت میں روانہ ہو چکےہیں
جس کے سنگین نتائج اور خوفناک انجام کا انہیں اندازہ ہی نہیں۔ اب میانوالی کے جلسے سے ”آزادی کی تحریک“ (کس سے آزادی؟) کا اعلان کرتے ہوئے عمران خان نے اپنے نئے انتخابات کے مطالبے کے لیے 20 مئی کی ڈیڈلائن دے دی ہے، جس کے پورا نہ ہونے کی صورت میں وہ اسلام آباد پر پُرہجوم قبضے کی کال دیں گے۔ شیخ رشید نے خوب ٹمی لگائی ہے کہ اسلام آباد کا مجمع بے قابو ہوسکتا ہے جسے عمران خان بھی کنٹرول نہیں کر پائیں گے۔ عاشقانِ عمران خان کے جذبات اتنے بھڑکائے جاچکے ہیں کہ دارالحکومت کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاسکتی ہے۔ اور اس پر ستم یہ کہ آگ بھڑکانے والے کہہ رہے ہیں کہ وہ آگ پر قابو نہیں پاسکیں گے۔ گویا خطرناک کارروائی کی تیاری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاست اپنے دارالحکومت کے جلنے کا انتظار کرتی ہے یا پھر حفظ ماتقدم کے طور پہ کوئی ایمرجنسی اقدام کرتی ہے کہ حادثہ ہونے سے پہلے روک دیا جائے۔ ان غیر معمولی حالات میں شہباز حکومت کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ …پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ یہ خیال ترک کر دے کہ اس کے پاس موجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کا مینڈیٹ ہے، گو کہ اسے یہ آئینی و پارلیمانی استحقاق ضرور حاصل ہے۔ موجودہ سیاسی بحران کا واحد حل یہ ہے کہ اگلے انتخابات کے شیڈول کا اعلان کردینا چاہیے۔ اگلے انتخابات کو متنازعہ بننے سے بچانے کے لیے واضح اقدامات کی ضرورت ہوگی۔ اس کے لیے نئی مردم شماری، اس کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں اور ووٹرز لسٹ کی
تیاری ضروری ہوگی اور انتخابی اصلاحات پر تمام جماعتوں کا قومی اتفاق رائے ضروری ہوگا۔ ظاہر ہے ان اقدامات کے لیے وقت درکار ہوگا جو نو دس ماہ سے کم نہیں ہوسکتا۔ انتخابات نومبر میں ہوں یا اگلے برس مارچ / اپریل میں، اس پر اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن یہ ایسا اختلاف نہیں جس پر عوامی سر پھٹول کی ضرورت ہوگی۔ دوسری بات اس حکومت کو جو کرنی چاہیے وہ فوری طور پر سپریم کورٹ کے ذریعہ ”امریکی سازش“ کی انکوائری کے لیے کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے جو کھلے عام تحقیقات کرے اور ایک ماہ کے اندر اپنی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کردے تاکہ یہ مسئلہ انتخابی مہم کو پراگندہ نہ کرے۔ تیسری بات شہباز حکومت کو ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ان کی حکومت قلیل مدتی، مخلوط، نحیف اور عبوری ہے۔ اس میں یہ فوری نوعیت کے اقدامات کرسکتی ہے۔ معیشت کو سنبھال سکتی ہے
اور انتظامی امور کو بہتر بناسکتی ہے۔ یقیناً اس حکومت کو بھی عوامی حمایت کے لیے کچھ بڑے قدم اٹھانے ہوں گے۔ آئندہ انتخابات کے ناطے سارے امور پر اسے فوری طور پر تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت دینی چاہیے اور تحریک انصاف کو نظام سے باہر نکلنے اور نظام کو زمین بوس کرنے کی خطرناک سیاست سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ انتخابات کے شیڈول پر اتفاق کے ساتھ ہی تحریک انصاف اسمبلیوں میں واپس آجائے تاکہ آئندہ انتخابات کو غیر متنازعہ، صاف و شفاف بنانے کے عمل میں یہ برابر کی شراکت دار بن جائے۔ عمران خان کو بھی احساس ہونا چاہیے کہ عوامی حمایت کو زیادہ گرمانے سے ان کے پر بھی جل سکتے ہیں۔ جمہوری و پارلیمانی نظام کی بقا ہی میں سب کی بقا ہے۔