in

لگتا ہے اسٹیبلشمنٹ بھی 2 حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے ۔۔۔۔۔ نامور صحافی کا موجودہ سیاسی حالات پر تہلکہ خیز تبصرہ

لگتا ہے اسٹیبلشمنٹ بھی 2 حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے ۔۔۔۔۔ نامور صحافی کا موجودہ سیاسی حالات پر تہلکہ خیز تبصرہ

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار حامد ولید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔پاکستان میں آئینی تماشے توبہت لگے ہیں، آئین کا تماشہ پہلی بار لگا ہے۔ یہ سرکس پہلے مرکز میں لگی تھی اوراب اس کا اہتمام صوبہ پنجاب میں کیا گیا۔ کچھ اسے آئین سے کھلواڑ قرار دیتے ہیں جبکہ

کچھ کے نزدیک یہ سراسر آئین سے بغاوت کے زمرے میں آتاہے۔ آئین میں جو لکھا ہے وہ اپنی جگہ درج ہے جبکہ پی ٹی آئی اس کے گرد گول گول گھوم رہی ہے۔ ایک خود ساختہ شفافیت کی دعویدار سیاسی جماعت سے اس سے بڑھ کر بھی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اس ساری صورت حال کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ قانون کے الفاظ جب عملی شکل اختیار کرتے ہیں تو کئی کئی طرح شکلیں اختیار کرتے چلے جاتے ہیں اور آخری فیصلہ عدلیہ کے پاس ہوتا ہے یا پھر ان کے پاس جو عدلیہ کے ججوں کو پی سی او پر حلف لینے کا انتظامی حکم دے سکتے ہیں۔ آئین کسی بھی ملک کی اجتماعی دانش کا مظہر ہوتا ہے۔ ہماری سیاسی صورت حال چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ ہماری اجتماعی دانش کا حلیہ کس قدر بگڑاہواہے۔ہماری اسٹیبلشمنٹ نے یک طرفہ پراپیگنڈہ کا ایسا چکر چلایا کہ آج خود اس گھن چکر میں پھنس گئی ہے اور اپنے ساتھ آئین، عدلیہ اور سیاسی نظام کو بھی لے ڈوبی ہے۔ اب بھی ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اندر سے تقسیم ہو چکی ہے اور آدھے لوگ ایک طرف دیکھ رہے ہیں اور آدھے لوگ دوسری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ثابت ہوا کہ اس ملک میں اسٹیبلشمنٹ براہ راست اقتدار میں آکر تودس دس سال تک براجمان رہ سکتی ہے لیکن کسی سلیکٹڈ کے ذریعے اگر ایسا کرنے کی کوشش کرے گی تو اپنے سمیت آئین اور عدلیہ کی درگت بیچ بازار میں کروائے گی۔ سیاسی جماعتیں میثاق معیشت پر تو متحد نظر آتی ہیں

مگر میثاق آئین کی بات کوئی نہیں کر رہا ہے۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ سیاستدانوں کے علاوہ بہت سے دیگر ایسے سٹیک ہولڈرز متحرک ہوگئے ہیں جو پراپیگنڈہ کے ذریعے اپنی مرضی کا بیانیہ اس ملک پر تھوپنے پر بضد ہیں۔ جنرل مشرف اس بات کا کریڈٹ تو بڑی شان سے لیتے تھے کہ انہوں نے ٹی وی چینلوں پر پابندی اٹھا کر میڈیا کو آزاد کیا لیکن بعد میں علم ہوا کہ میڈیا کی آزادی اور ٹی وی چینلوں کے نام پر اسٹیبلشمنٹ نے ایسے بہت سے آؤٹ لیٹ کھول لئے ہیں جن میں سرمایہ کاری تو سرمایہ داروں نے کی ہے مگر ان ٹی وی چینلوں کی پالیسی اسٹیبلشمنٹ کی بنی ہوئی ہے۔ چنانچہ پانامہ کے مقدمے سے لے کر 2018کے انتخابات تک ان ٹی وی چینلوں سے ایک ایسے بیانئے کو اچھالا گیا جس کا مقصد عوام میں مقبول سیاسی قیادت کو بدنام کرنا ان سے جھوٹی بدعنوانی کی کہانیاں منسوب کرکے انہیں ڈس کریڈٹ کرنا تھا۔ جبکہ ان کے مقابلے میں عمران خان کو نہ صرف ایک بہت بڑے لیڈرکے طورپر پراجیکٹ کیا گیا بلکہ اعلیٰ عدلیہ سے انہیں صادق اور امین بھی ڈکلیئر کروادیا گیا۔ چنانچہ اب جب اسٹیبلشمنٹ کو ان سے جان چھڑوانا پڑی ہے تو اس کی حالت وہی ہے کہ وہ تو کمبل کو چھوڑنا چاہتی ہے، کمبل اسے نہیں چھوڑ رہا ہے۔ آزاد صحافتی حلقے پہلے دن سے کہتے آئے ہیں کہ ریٹائرڈفوجی جرنیلوں کو ٹی وی چینلوں پر آکر سیاسی پوزیشن نہیں لینی چاہئے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے کان پر جوں تک نہ رینگی اورآج جب پی ٹی آئی پاک فوج اور اس کے چیف کے خلاف پراپیگنڈہ چلارہی ہے،ا بھی بھی کئی ایک ریٹائر فوجی افسران پرانی لائن پر ہی لگے ہوئے ہیں۔

کیا یہ ادارے کی پالیسی ہے یا پھر unity of commandکا تازیانہ ہے؟ایسے میں اگرواقعی اگلے تین ماہ میں عام انتخابات ہو جاتے ہیں اور عمران خان برسراقتدار آجاتے ہیں تو ادارے میں کیسی کیسی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو سکتی ہیں، اس کو سمجھنے کے لئے ارسطو ایسی دانش کی ضرورت نہیں ہے۔ مریم نواز درست کہتی ہیں کہ اس صورت حال سے ایک فتنہ کے طور پر نپٹنا چاہئے۔ عام خیال یہ ہے کہ اگلے عام انتخابا ت سے قبل وہ انتخابی اصلاحات حقیقت کا روپ دھار لیں گی جو ان کی شفافیت کے لئے ضروری ہیں اور صرف وہی سیاسی جماعت جیت کر سامنے آئے گی جو عوامی امنگوں کی حقیقی ترجمان ہوگی۔ لیکن اگر پی ٹی آئی اسی طرح فوری انتخابات کے لئے بضد رہی اور الیکشن کمیشن فارن فنڈنگ کیس کو بھول کر اگلے انتخابات کی تیاری میں جت گیا تو اگلے عام انتخابات خونی انتخابات ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ اگر 2018سے اب تک نون لیگیوں کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا تو اب پی ٹی آئی والوں کی بھی یہی حالت ہے۔

عمران خان امریکہ، اورفوج پر تنقید کرتے کرتے اب الیکشن کمیشن کو اپنے نشانے پر رکھے نظر آرہے ہیں۔ جو کوئی ان کی مرضی کے خلاف کام کرتا ہے وہ ان کے نشانے پر ہوتا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ یہ رویہ کب تک قابل برداشت ہوگا؟ پنجاب میں حمزہ شہباز کے حلف کو لے کر پی ٹی آئی نے جس طرح کا تماشہ لگایا ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ یا تو گورنر پنجاب ہماری اسٹیبلشمنٹ کے کہنے میں نہیں ہیں یا پھر اسٹیبلشمنٹ کسی جلدی میں نہیں ہے۔ خیر اس سے پی ٹی آئی کے حامیوں کی بڑی حد تک انا کی تسکین ضرور ہو رہی ہے جو کسی حد تک ضروری بھی ہے۔ اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان نے صرف اپوزیشن کی تھی مگر اب وہ اپوزیشن کی بجائے اقتدار کے حصول کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ اب ان کا کام حکومت کی خامیوں کو اجاگر کرنا نہیں رہا ہے، اس کے برعکس اب وہ ہر اس شخص اور ہر اس ادارے کے درپے ہیں جن کا اقتدار کی سیڑھی لگانے میں کوئی کردار ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے۔ اب عمران خان ایک نئی طرح کی سیاست کر رہے ہیں۔ پہلے لوگ کہتے تھے کہ انہیں ایک موقع دینا چاہئے، اب عمران خان خود ایک موقع کی تلاش میں اوتاولے ہوئے پڑے ہیں اور امریکہ سے لے کر چیف الیکشن کمشنر تک ہر ایک کے لتے لے رہے ہیں۔ بات یہیں تک ہوتی تو ٹھیک تھی، و ہ تو صدر اور گورنر کے ذریعے آئین کا تماشہ بھی لگائے ہوئے ہیں۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

ایک چیونٹی کا ایسا زبردست جواب جس نے حضرت سلیمان کو بھی حیران کر دیا

برطانوی خاتون نے لاٹری جیت کر 60 ملین پاؤنڈ کیوں بانٹ دیئے؟؟ سن کر آپ حیرن رہ جائیں