زندگی میں ہی وصیت سمیت چند کام ضرور کریں تاکہ پیچھے والے جھگڑوں سے بچ سکیں
ارمغان ابھی میٹرک میں تھا اور اس سے ایک بڑی بہن اور دو بڑے بھائی تھے جو شادی شدہ تھے ۔ وہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے والدین کا بہت لاڈلا تھا اور یہ بات اس کے بھائیوں کو کبھی کبھار ناگوار گزرتی تھی۔ کھاتا پیتا گھرانہ تھا زندگی مزے میں گزر رہی تھی کہ اچانک وہ ہوا جس کے لئے یہ خاندان نہ دماغی طور پر تیار تھے نہ جذباتی طور پر- ارمغان کیمسٹری کی کلاس میں تھا کہ پرنسپل کا بلاوہ آیا کہ اس کا بڑا بھائی آصف اسے لینے آیا ہے ۔ کیونکہ آصف بھائی ایک مصروف آدمی تھے تو اس کو کچھ خوف محسوس ہوا کہ وہ کیوں آئے دھڑکتے دل کے ساتھ وہ پرنسپل آفس پہنچا اور بس آصف بھائی نے اسے گلے سے لگایا اور بس کہتے رہے فکر نہ کرو تمھارا بڑا بھائی موجود ہے۔ اس کے والد کا ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو چکا تھا ۔اس کے لیے یہ بیان سے باہر یہ ایک قیامت تھی ۔۔۔۔۔
والد کو دفنا کر آئے وہ بالکل چپ تھا سب ایک خواب کی طرح لگ رہا تھا وہ بس دعا کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کی آنکھیں کھول دے اور یہ بھیانک خواب کسی طرح ختم ہو- لیکن ایسا نہیں ہوا ابھی تو اور بھی بڑے امتحان اس کا انتظار کر رہے تھے۔ ابھی والد کی قبر کی مٹی بھی نہ سوکھی تھی کہ خاندان والے بٹوارے کی باتیں کرنے لگ گئے۔ اسے یہ سب بہت عجیب لگ رہا تھا اس کا دوسرے نمبر کا بھائی ریحان مزاجاً خود غرض تھا بزنس کرنا چاہتا تھا اور والد کی زندگی میں بھی اس نے اپنے حصے کا ایک آدھ دفعہ تقاضا کیا تھا- وہ تو تیار بیٹھا تھا فوراً بٹوارے کی بات چھیڑ دی ۔ آصف نے کسی طرح بات کو ٹالا کیونکہ انھیں والد صاحب کے اکاؤنٹس اور کاغذات وغیرہ کی کچھ خبر ہی نہیں تھی نہ والدہ نے ان سب معاملات میں گھسنے کی کوشش کی۔ ۔۔۔۔ غرض ہنستا بستا گھر کچھ ہی دنوں میں جنگی میدان بن گیا۔
وصیت لکھنا کیوں ضروری۔۔۔۔۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: “جس کسی مسلمان کے پاس وصیت کے قابل کوئی بھی چیز ہو (یعنی کسی کا لینا دینا یا اس کے ذمہ مالی حقوق ہوں) تو اس کے لئے جائز نہیں کہ وصیت لکھ کر محفوظ کیے بغیر دو راتیں بھی بسر کرے”(صحیح مسلم 1627)
موت برحق ہے ہم جانتے ہیں ہم پر ہمارے لواحقین کا حق ہیں۔ ہم دنیا میں جو کماتے ہیں اپنے بیوی بچوں کو آرام دینے کے لئے کیا ہم کبھی سوچتے ہیں کہ خدانخواستہ کوئی ناگہانی کی صورت میں ان لوگوں کا کیا ہوگا جبکہ آپ نے ان کے مستقبل کے لیئے سیونگ بھی کی ہو لیکن اس سیونگ تک ان کی رسائی نہ ہو۔۔۔۔
عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے ماں باپ سنگین بیماری کی صورت میں ہم سے کچھ کہنا چاہتے ہیں اور ہم ان کے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں “اللہ نہ کرے۔۔۔ کیوں ایسی منحوس باتیں منہ سے نکال رہے ہیں حالانکہ یہی منحوس باتیں ڈسکس نہ کرنا بعض اوقات بعد میں شدید مشکلات کا باعث بنتا ہے۔
کئی لوگوں کو دیکھا گیا ہے، بہترین زندگی گزارتے ہیں، بیوی بچوں کو پر آسائش ماحول میں رکھا ہوا ہوتا ہے اچانک کسی حادثے کی صورت میں سربراہ کے چلے جانے سے ان پر افتاد ٹوٹ پڑتی ہے۔۔۔کسی کو کچھ پتا نہیں ہوتا کہ وفات پانے والے سربراہ کے اے ٹی ایم کا کیا نمبر ہے، کس کس بینک میں اکاؤنٹ ہے، کس سے پیسے لینے ہیں اور کس کو دینے ہیں، گھر کے کاغذات کہاں ہیں وغیرہ۔۔۔
نتیجتاً سب کچھ ہوتے ہوئے بھی لواحقین کے پاس کچھ نہیں ہوتا، خاص طور پر بچے چھوٹے ہیں تو بیوہ کو معاشرے کے مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہے، رشتہ داروں کے اصلی چہرے دکھتے ہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہی سہارا ہے لیکن اگر مال ہوتے ہوئے بھی رسائی نہ ہو یہ تکلیف دہ ہے۔
دیکھا جائے تو اب حالات کچھ ایسے ہو گئے ہیں کوئی بھی کسی پر اعتبار کو تیار نہیں باپ کو ڈر ہے کہ اگر میں نے بیٹوں میں جائیداد تقسیم کر دی تو یہ میری قدر کرنا چھوڑ دیں گے۔ میاں بیوی سائیکل کے دو پہیے ہوتے ہیں ساتھ بوڑھے ہوتے ہیں کم از کم وہ ایک دوسرے پر اعتبار کر لیں۔
ہمارے ہاں عموماً خواتین بینک وغیرہ کے معاملات سے نابلد ہوتی ہیں لیکن جب ان پر پڑتی ہے تو لا محالہ ان کو یہ سب کام کرنے پڑتے ہیں اور ان کو کافی دھوکوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے تو بہتر نہیں کہ شوہر اپنی زندگی ہی میں اس کو ہر طرح کے حالات کے لئے تیار کرے۔
میرے ایک رشتہ دار نے بڑا اچھا کام کیا، شدید علالت میں اپنی بیوی کو اپنا بینک اکاؤنٹ نمبر، رقم کی تفصیل، اے ٹی ایم کارڈ نمبر، کریڈٹ کارڈ نمبروغیرہ ساری تفصیلات لکھ کر اپنے آپ کو ای میل کر دیں اور ای میل کا user name اور پاس ورڈ ایک چٹ پر لکھ کر بیگم کو دے دیا۔ بیگم صاحبہ وہ چٹ اپنے سوٹ کیس کے کونے کھدرے میں رکھ کر بھول گئیں۔ شوہر کی وفات کے بعد جب پیسوں کی ضرورت پیش آئی تو بیگم بھول گئیں کہ انھوں نے چٹ کہاں رکھی حالات انتہائی خراب ہوتے گئے اور بالآخر پانچ سال بعد انہیں اچانک ایک دن چٹ ملی تو ان کی خوشی کی انتہا نہ تھی کہ برے دن ٹلے۔
پرانے وقتوں میں لوگ ڈائریاں لکھتے تھے ان کے انتقال کے بعد ان کی ڈائریاں کھولی جاتی تھیں۔ آج کے زمانے میں تو مزید سہولتیں ہیں، موبائل فون ہی کسی تجوری سے کم نہیں لیکن اس کا پاس ورڈ تو کسی بھروسے والے لواحقین کو پتا ہونا چاہئے۔ کیا ہم جو کچھ کرتے ہیں اپنی اولاد کے لئے نہیں کرتے؟ اگر ہاں تو ہمیں ان کی زندگیوں کو اپنی موت کے بعد بھی آسان بنانے کا سوچنا چاہئے۔ دنیا سے جانے والا تو اپنے ساتھ کفن ہی لے جاتا ہے بس۔۔۔
میری ایک سینئر بینک آفیسر دوست بتا رہی تھیں ان کے بینک میں سینکڑوں ایسے اکاؤنٹس اور لاکرز موجود ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں۔اکاؤنٹ ہولڈرز کی موت ہو چکی ہے اور ان کے لواحقین کو خبر بھی نہیں کہ فلاں بینک میں ان کے باپ یا شوہر کا اکاؤنٹ تھا۔ پتا نہیں کن حالات سے گزرنا پڑتا ہو ان لوگوں کو۔یہ خفیہ اکاؤنٹ لازمی اپنے خاندان کے برے وقتوں کے لئے کھولے جاتے ہیں بس یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔-