اوریا مقبول جان کی زبردست تحریر
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔جنوری 2022ء کے آغاز میں امریکہ سمیت پاکستان کی اہم خفیہ ایجنسیوں نے یہ رپورٹیں مرتب کیں کہ اگر عمران خان کی حکومت کو برطرف کیا گیا تو پی ٹی آئی تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گی
اور عمران خان عوام میں اپنی شکل دکھانے کے بھی قابل نہیں ہو گا۔ اس سے پہلے پاکستان میں امریکہ کا سابق سفیر کیمرون منٹر (Cameron Muntor) کہہ چکا تھا کہ اب پاکستان ہمارے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ چین سے مقابلے کے لئے اب ہمارا میدانِ واہگہ سے سڈنی تک ہے۔ لیکن فروری میں روس کے یوکرین پر اٹیک نے سارا عالمی سین بدل کر رکھ دیا۔ اب امریکی چاہتے تھے
کہ پاکستان میں ضیاء الحق اور مشرف جیسی وفادار حکومت ہو جسے ہم خطے میں ایک لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کر سکیں۔ یوکرین میں وفاداریاں خرید کر حکومت بدلنے کا کامیاب تجربہ ہو چکا تھا۔ اسی طرز پر نو اپریل 2022ء کو رات بارہ بجے کے قریب عمران خان کی حکومت ختم کر دی گئی، لیکن دس اپریل نے امریکہ سمیت سب کو چونکا دیا۔ پاکستان کی گذشتہ تاریخ میں ایسا اچانک ردّعمل کبھی نہیں دیکھا گیا تھا کہ دو سو سے زیادہ شہروں میں لوگ ازخود باہر نکل آئے ہوں اور دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی پاکستانی رہتے ہوں،
سراپا احتجاج بن جائیں۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اسے ایک وقتی اُبال سمجھی، لیکن امریکیوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ آیت اللہ خمینی کا شیطانِ بزرگ اور مرگ بر امریکہ والا بیانیہ اب عمران خان کی وجہ سے یہاں مقبول ہو جائے گا۔ وہ اسے مزید خطرناک اس لئے بھی سمجھتے تھے کہ ایران میں تو تحریک آہستہ آہستہ پروان چڑھتی رہی مگر یہاں تو ایک دَم طوفان کھڑا ہو گیا تھا اور بڑھتا چلا جا رہا تھا۔
امریکیوں نے ایران میں ناکامی کے بعد یہ سیکھ لیا تھا کہ اب صرف اسی اسٹیبلشمنٹ سے تعلق بنانا ہے، جو عوام میں مقبول ہو۔ یہی وجہ ہے کہ چلّی کا ڈکٹیٹر جنرل پنوشے جو ان کی ملٹری اکیڈمی کا تربیت یافتہ تھا اور جسے انہوں نے 1973ء میں اپنی مدد سے حکومت پر بٹھایا تھا، پھر اسے جمہوری صدر بھی بنوا دیا تھا۔ لیکن جب عوام اس کے خلاف ہوئے تو امریکی پیچھے ہٹ گئے۔ اسے صدارتی الیکشن میں شکست ہوئی مگر وہ آرمی چیف کے عہدے پر رہا۔ لیکن جیسے ہی اس نے وردی اُتاری، اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس نے امریکہ کو مدد کے لئے پکارا لیکن امریکی تو اب اس کے ساتھ تھے
جو چلّی کی عوام میں مقبول تھا۔ وہ صحت کی خرابی کا بہانہ بنا کر لندن چلا آیا۔ چلّی کی حکومت نے عالمی وارنٹ جاری کر دیئے اور امریکی جن کے لئے اس نے اپنے لاکھوں ہم وطنوں کو زندگی سے محروم کیا تھا، انہوں نے کان سے پکڑ کر اسے چلّی کی حکومت کے حوالے کر دیا۔ امریکیوں نے شاہ آف ایران، مارکوس اور پنوشے وغیرہ کی حکومتوں کے زوال کے بعد
یہ طے کر لیا تھا کہ اب ہم اس اسٹیبلشمنٹ سے معاملات نہیں طے کریں گے جس کی عوام میں عزت و توقیر ختم ہو چکی ہو یا جو اپنے فیصلے عوامی مخالفت کی وجہ سے نافذ نہ کر سکے۔ امریکی دس اپریل سے اگست تک پانچ مہینے پاکستان میں اُبھرنے والی اس امریکہ مخالف تحریک کا جائزہ لیتے رہے۔ ان کے اخبارات نے تیسرے مہینے بعد ہی لکھنا شروع کر دیا تھا
کہ امریکی پاکستان میں غلط گھوڑے پر سوار ہو چکے ہیں اور ملک میں اگر امریکہ سے نفرت کی یہی فضا قائم رہی تو پھر امریکہ افغانستان اور ایران سے تو پہلے نکل چکا ہے اب پورے خطے سے نکل جائے گا۔ اس خوف کے عالم میں امریکہ نے پاکستان کی حمایت کے لئے بدنام رابن رافیل کو پاکستان بھیجا
جس نے یہاں صرف اور صرف عمران خان سے ملاقات کی۔ اس کی واپسی کے بعد ایسے لگتا ہے سب کچھ بدل چکا ہے۔ امریکہ میں قائم ’’پاکستان سٹڈی گروپ‘‘ کی رپورٹ اس ہفتے آئی ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ امریکہ پاکستان میں رہنا چاہتا ہے، مگر وہ یہاں ہرگز ہرگز کسی غیر مقبول سیاسی لیڈر یا عوام سے کٹی ہوئی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کام نہیں کر سکتا۔