in

لڑکیوں کےگالوں میں ڈمپل شاید آپ کو بھی پسند ہونگے مگر یہ کیوں پڑتے ہیں ؟ حیران کن انکشاف

لڑکیوں کےگالوں میں ڈمپل شاید آپ کو بھی پسند ہونگے مگر یہ کیوں پڑتے ہیں ؟ حیران کن انکشاف

مسکراہٹ سب کو اچھی لگتی ہے اور ہنسنے کے عمل کے دوران گالوں پر ڈمپلز پڑنے سے انسان کی مسکراہٹ مزید خوبصورت ہو جاتی ہے لیکن بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ یہ ڈمپلزدراصل پٹھوں میں خرابی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ۔ڈمپلز کے بارے میں عام تاثر ہے کہ یہ ایک وراثتی خصوصیت ہے جو ماں یا باپ میں سے کسی ایک کے پاس ہونے کی صورت میں اولاد میں بھی

منتقل ہوجاتی ہےتاہم جدید سائنس کے مطابق یہ نظریہ 100 فیصد درست نہیںکیونکہ ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ حقیقت یہہے کہ ڈمپلز کا پڑنا پٹھوں کی خرابی کی وجہ سے ہے۔اگر ماں اور باپ دنوںکے گالوں پر ڈمپل نمودار ہوتے ہوں تو ا س صورت میں بھی بچوں میں ڈمپلز پڑنے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی چہرے میں گالوں کی طرف زائیگو میٹکس میجر نامی

پٹھے موجود ہوتے ہیں جو جسامت میں نہایت بڑے ہوتے ہیں۔ یہ پٹھے ہمیں مسکرانے میں مدد دیتے ہیں۔ لیکن بعض دفعہ یہ پٹھے جینیاتی خرابی کے باعث پیدائش کے وقت ٹوٹ جاتے ہیں یا کمزور ہوجاتے ہیں اوراس خرابی کے حامل افراد جب مسکراتے ہیں تو ان کے پٹھے کھنچ کر اوپر اور نیچے کی طرف چلے جاتے ہیں اور درمیان میں ایک خلا سا پیدا ہوجاتا ہے جو چہرے پر ڈمپل کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔یوں بظاہر پٹھوں کی خرابی ہمارے چہرے اور مسکراہٹ کو نہایت خوبصورت بنا دیتی ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق ایک بار یہ خرابی پیدا ہونے کے بعد پھر یہ ہمارے جسم کا حصہ بن جاتی ہے، لہٰذا ڈمپل پڑنے سے تشویش کا شکار ہونے کی ضروت نہیں۔کسان بہت محنت کرکے اپنے کھیتوں میں پھل اور اناج اگاتے ہیں اور دن رات اس فکر میں رہتے ہیں کہ کیسے اپنے کھیت میں اُگنے والے اناج کی حفاظت کرسکیں اور فصل کی بروقت کٹائی اور صفائی کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ

محنت کش کسان سب سے زیادہ اچھی کھاد استعمال کرنے کا سوچتا ہے اور خواہش رکھتا ہے کہ اس کی فصل جلدی پھلے پھولے اور منافع بخش بھی ثابت ہو۔ایسے ہی ایک کسان کی کہانی ہم آپ کو بتانے جا رہے ہیں جو ٹائمز ناؤ نیوز، ہندوستان ٹائمز اور دیگر بھارتی نیوز ویب سائٹس پر بتائی گئی ہے۔ بھارت کے مدھیہ پردیش سے تعلق رکھنے والا کسان جوڑا جن کے نام رانی اور سنکلپ

پریھار ہیں۔ یہ دونوں بتاتے ہیں کہ:” ہم دونوں کولکتہ سے مدھیہ پردیش ٹرین کا سفر کرکے واپس آ رہے تھے اور ایک دوسرے سے فصل کی باتیں کر رہے تھے کہ کون سی کھاد استعمال کریں اور کس قسم کی کھاد کو استعمال نہ کیا جائے تاکہ ہم کم وقت میں زیادہ منافع کما سکیں، ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ہمارے برابر بیٹھے ایک شخص نے بھی ہم سے فصل کے متعلق

بات کرنی شروع کردی۔ ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ وہ کون تھا کہاں سے تعلق رکھتا تھا، مگر وہ ایک مسلمان شخص تھا جس کے پاس فصل اور کھیتوں سے متعلق بہت معلومات تھی۔ اس نے ہم سے 1 گھنٹہ مسلسل باتیں کیں اور پھر جب اس کا اسٹیشن آنے والا تھا تو اس نے ہمیں 2 گٹھلیاں دیں اور کہا کہ یہ اگاؤ، اس سے زیادہ اچھا پھل کہیں نہیں ملے گا ہم دونوں نے رکھ لیا۔رانی کہتی ہیں

کہ: پھر 7 دن کے بعد مجھے یاد آیا کہ اس گٹھلی کو ہم اپنے کھیت میں لگا کر تو دیکھیں کہ کیا واقعی وہ انسان جو بول رہا تھا وہ سچ ہے بھی یا نہیں۔ پھر ہم نے وہ گٹھلی لگائی، اس کی حفاظت بھی کی جیسے باقی پودوں کی کرتے ہیں اور پھر جب اس میں سے لال رنگ کا خوبصورت آم نکلا تو ہم حیران رہ گئے کہ یہ آم ہے لیکن لال آم جس کے بارے میں ہم نے کبھی سنا بھی نہیں۔

یک دن میرا شوہر اس کو مارکیٹ میں بیچنے گیا تو اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، کیونکہ ایک کلو آم کے بدلے اس نے مجھے 1 لاکھ 70 ہزار روپے لا کر دیئے اور اس کے ہوش اڑے ہوئے تھے، پسینہ ٹپک رہا تھا۔ میں نے پوچھا آج کیا بات ہے سب خیریت ہے آج سے پہلے اتنا پریشان نہیں دیکھا۔ ”پھر میرے شوہر سنکلپ پریھار نے بتایا کہ: ” ہمارے پاس ایک قیمتی خزانہ ہے

اور وہ ہماری زمین پر لگے ہوئے لال آم ہیں جن کو تم ہر وقت بُرا بھلا کہتی رہتی ہو کہ یہ کیسے آم ہیں یہ کیا ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔ رانی تم اب واقعی رانی بن چکی ہو کیونکہ یہ آم جو ہمارے پاس ہیں ان کا نام میاں قاضی آم ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ مہنگا فروخت ہوتا ہے۔ ایک کلو آم کی قیمت 1 لاکھ 70 ہزار روپے ہے اور یہ پیسے رکھ لو کسی کو بتانا مت اور اب سے کوئی

فصل دیکھنے آئے تو دھیان رکھنا کہ کوئی آم نہ توڑ کر لے جائے۔”رانی بتاتی ہیں کہ: ” اس دن سے آج تک ہم نے آموں کی خوب دیکھ بھال شروع کردی، پھر جیسے جیسے لوگوں کو معلوم ہوا کہ ہمارے پاس بہت مہنگا آم ہے تو بہت سے لوگ چوری کرنے آئے، کسی نے ہمیں دھوکہ دینے کی کوشش کی لیکن اب ہم نے ان آموں کی حفاظت کے لئے 7 قیمتی کتے اور ایسے گارڈز محافظ

رکھ لئے ہیں جو آموں کے ساتھ ساتھ پوری زمین کی حفاظت کرتے ہیں۔”پہلے ہمارے پاس اتنی آمدنی نہیں تھی، لیکن بھلا ہو اس مسلمان شخص کا جس نے ہمیں اس آم کی گھٹلی دی جس نے ہمیں کم ہی وقت میں امیر بنا دیا اور اب ہمارے پاس ایک اچھا مہنگا گھر ہے جو ہمارے خوابوں کی تعبیر معلوم ہوتا ہے اور ہمارے آم بھی ہمارے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ لیکن ایسا بالکل نہیں ہے کہ ہم باقی پھلوں کا خیال نہیں رکھتے، ہمارے لئے ہر پھل اور سبزی یا اناج سب ہی برابر ہیں اور سب کے لئے مناسب محنت کرتے ہیں۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا کوئی کام نہ رکے تو یہ وظیفہ کریں

حسرت ہے کہ میں بھی کبھی ہیلی کاپٹر میں بیٹھوں ۔۔ گھروں میں کام کر کے بچوں کو پالنے والی ماں کا خواب بیٹے نے کیسے منٹوں میں پورا کیا؟