شہباز گل اگر ٹوٹ گیا ہے تو کوئی قربانی کیوں نہیں ہوئی ؟
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ آخر مشکل یہ ہے کہ ہولناک الزامات کی یلغار میں گھرا ہونے کے باوجود کپتان تن کر کھڑا ہے۔اس سے بھی سوا یہ کہ ہر بار اس کی آواز پہ غمگسار امنڈے چلے آتے ہیں۔بچے ‘ بوڑھے‘ عورتیں سب سے بڑھ کر
جوانانِ رعنا اور وہ جدید بستیوں کے وہ مکین‘ ابھی کل تک کارِسیاست سے جو بے زار تھے۔سیاستدانوں کی طرف جو نگاہ غلط انداز سے دیکھتے اور اپنے محسوسات کی دنیا میں داخل ہونے نہ دیتے:
سایۂ ابرِ گریزاں سے ’’ہمیں‘‘ کیا لینا ریگ زاروں میں بگولوں کے سوا کچھ بھی نہیں پانچ سات دن چلیے‘ پانچ سات ہفتے میاں صاحب ہجوم گرما لیں گے۔اس کے بعد کیا ہو گا؟جب لات چلے گا بنجارہ ۔نہلے پہ جب دہلا پڑے گا۔سو سنار کی ایک لوہار کی
۔زمان پارک کے مکین نے کسی دن مینار پاکستان کے نواح کو تمتاتے چہروں سے بھر دیا تو کیا ہو گا۔کیا ہو اگر یہ لوگ لاہور کے کوچہ و بازار میں نعرہ زن ہوں؟ لاہور ہی پہ کیا موقوف قصور‘ شیخو پورہ‘ گوجرانوالہ‘ فیصل آباد‘ ساہیوال‘ خانیوال‘ ملتان‘
گجرات ‘ راولپنڈی اور پشاور کے علاوہ دریائے کابل کے پار ایک ایک دیار میں۔ اس کے سوا بھی تو ایک دیوار راہ میں ہے۔دیوار کیا سدِ سکندری۔ ججوں نے اگر انکار کر دیا‘ عدالت نے قانون کی پاسداری کا مصمم ارادہ کر لیا؟ سیاست میں تاویل کی کوئی آخری حد نہیں ہوتی
۔قانون کو کبھی کبھار ہی موم کی ناک بنایا جا سکتا ہے۔حالات جب سازگار ہوں ‘ خلق خدا جب متوجہ نہ ہو۔آج کے پاکستان میں دو اور دو چار کی طرح کچھ حقائق ایسے ہیں جو ہمالہ کی طرح اٹل ہیں
۔عدالت عظمیٰ جس کا حکم کوئی منسوخ نہیں کر سکتا‘میاں صاحب سزا یافتہ ہیں۔ اس شرط کے ساتھ جیل سے رہائی اور سمندر پار سفر کی اجازت ملی تھی کہ چار چھ ہفتے میں لوٹ آئیں گے۔لوٹ کر کیا آتے؟ علاج کی ابتدا ہی نہ ہوئی ۔وہ جو پلیٹ
لیٹس کا شور شرابا تھا۔نرا شور شرابہ ہی نکلا۔یہ اکیسویں صدی ہے۔معالج اور مشینیں بتا سکتی ہیں کہ مریض کبھی مبتلا بھی تھا یانہیں: تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ خلقِ خدا کے ساتھ فریب دہی تو کارِ سیاست میں کبھی کوئی جرم تھا ہی نہیں
مگر عدالت کو دھوکہ دہی؟ برادرِ کلاں ہی نہیں ممکن ہے وزیر اعظم بھی طلب کئے جائیں۔’’حضور!آپ نے پیمان کیا تھا؟ شخصی ضمانت آپ نے دی تھی‘‘۔ شہر شہر ایسے میں ہجوم اگر فریاد کناں ہوں؟چیخ چیخ کر پوچھ رہے ہوں۔ مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟ منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے؟
ایسے میں کوئی لشکر کیا کرے گا؟ سالار کیا کریں گے؟ اگر عدالت ہی عرصہ امتحان میں ہوئی؟کیا کوئی ڈوبنے والا بھی بوجھ اٹھایا کرتا ہے؟ پس تحریر: اتنے بہت سے اخبارات اوراتنے بہت سے چینل یک آوازاونچے سروں میں گا رہے ہیں کہ شہباز گل ٹوٹ گیا ہے؟ واقعی ایسا ہے؟ تو کوئی قربانی کیوں نہیں؟کوئی انکشاف کیوں نہیں؟