700 پاکستانیوں میں سے درجن بھر کے 5 ملین ڈالر کے اثاثے نکلے ٗ اہم انکشافات
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) 700 پاکستانی ایسے ہیں جو لاکھوں ڈالر ہولڈنگز کے ساتھ آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں لیکن ایک درجن سے زائد امیر خاندانوں، افراد اور کاروباری افراد کے پاس پانچ یا پانچ ملین ڈالر سے زائد اثاثے ، ہولڈنگز ، کیش اکاؤنٹس ، بانڈز ، ایکوئٹی اور باہمی فنڈز ان کی آف شور کمپنیوں میں ہیں۔ ایک بار پھر یہ بتانا بھی دانشمندی ہوگی کہ تمام آف شور کمپنیاں غیر قانونی نہیں یا مذموم سرگرمیوں کی بناء پر نہیں بنائی گئی ہیں۔روزنامہ جنگ میں فخر درانی کی خبر کے مطابق پنڈورا پیپرز سے انکشاف ہوا کہ برٹش
ورجن آئی لینڈز میں رجسٹرڈ لکی راجی ہولڈنگز لمیٹڈ کانگو میں قائم سیمنٹ کمپنی کے 100 فیصد شیئرز رکھتی ہےجس کی تخمینہ قیمت 175 ملین ڈالر (29.75 ارب روپے) ہے۔ محمد علی طبہ اور سہیل احمد طبہ کچھ دیگر شراکت داروں کے ساتھ کمپنی کے شیئر ہولڈرز اور ڈائریکٹرز ہیں۔مزید برآں دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ خاندان آف شور کمپنی روز نیتھ انویسٹمنٹس لمیٹڈ کا بینفشری ہے۔ کمپنی کے اثاثوں کی تخمینہ قیمت 132, 925, 406 ڈالرز (132, 92 ملین ڈالرز) (22.59 ارب روپے) ہے اور فنڈز کے ماخذ کو ’خاندانی کاروبار سے حصص کی وراثت ، لکی سیمنٹ لمیٹڈ‘ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ پنڈورا پیپرز سے یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ طبہ خاندان ایک اور آف شور کمپنی کیلیکو فنانس لمیٹڈ کا مالک ہے اور محمد سہیل طبہ کمپنی کے بینفشل اونر ہیں۔ کیلیکو ایک سرمایہ کاری ہولڈنگ ہے اور 5.9 ملین ڈالر (1 ارب روپے) نقد اور مارکیٹ کے قابل سیکیورٹیز کا مالک ہے۔
طبہ فیملی نے اپنے جواب میں بتایا کہ ایل سی ایل انویسٹمنٹ ہولڈنگ لمیٹڈ (لکی سیمنٹ لمیٹڈ کی مکمل ملکیتی ذیلی کمپنی) لکی راجی ہولڈنگ لمیٹڈ (ایل آر ایچ ایل) میں 50 فیصد حصص رکھتی ہے جسے اسٹیٹ بینک کی اجازت کے بعد قائم کیا گیا تھا۔ خاندان نے مزید کہا کہ روزنیتھ انویسٹمنٹ صرف ایک ہولڈنگ کمپنی ہے اور لکی سیمنٹ لمیٹڈ کے 22, 803, 029 شیئرز رکھتی ہے۔ آمدنی کا واحد ذریعہ لکی سیمنٹ لمیٹڈ کا منافع ہے جس پر پاکستان میں ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ خاندان نے مزید واضح کیا کہ کیلیکو فنانس لمیٹڈ کے پاس کوئی قابل فروخت سیکیورٹیز نہیں ہے۔ ان کمپنیوں کے اعلان اور ان کمپنیوں کے پاس موجود اثاثوں کے بارے میں طبہ خاندان نے بتایا کہ انہیں ایمنسٹی اسکیم غیر ملکی اثاثے (اعلان اور وطن واپسی) ایکٹ 2018 کے تحت ظاہر کیا گیا ہے۔
لیک ہونے والی دستاویزات کے مطابق ، بشیر داؤد اور مریم داؤد بی وی آئی کمپنی ایس مائنر انویسٹمنٹ لمیٹڈ کے بینفشل اونرز ہیں۔ کمپنی کا انویسٹمنٹ پورٹ فولیو اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک سنگاپور کے پاس ہے جس میں کیش اکاؤنٹس ، بانڈز ، ایکوئٹی اور میوچل فنڈز شامل ہیں۔ اثاثوں کی تخمینہ قیمت 13.3 ملین امریکی ڈالرز (2.26 ارب روپے) ہے۔پنڈورا پیپرز سے پتہ چلتا ہے کہ ایک برطانوی پاکستانی فرد محمد شریف BVI میں ایک آف شور کمپنی ’مے اسٹون ہولڈنگز لمیٹڈ‘ کا مالک ہے۔ کمپنی Ranchville Equities Limited کی مالک ہے جس کے نتیجے میں لندن ، برطانیہ میں جائیداد ہے۔ ان اثاثوں کی تخمینہ قیمت 130ملین GBP یعنی 30.16 ارب روپے ہے۔
لیک ہونے والی دستاویزات میں مزید انکشاف ہوا ہے کہ نیشنل گلاس انڈسٹری ایل ایل سی کے سی ای او امجد علی حسین ایک آف شور کمپنی ڈائنامک کارپوریشنز کے مالک ہیں۔ کمپنی جی سی سی میں کمپنیوں میں شیئرز کے ساتھ ساتھ امریکی ایکویٹی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرے گی۔ اثاثوں کی تخمینہ قیمت 20 ملین امریکی ڈالرز (3.4 ارب روپے) ہے۔ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ وسیم مختار ایک ٹرسٹ ’ لوفٹس ٹرسٹ‘ کے مالک ہیں۔ ٹرسٹ اثاثوں کی قیمت 55 ملین امریکی ڈالرز (9.35 ارب روپے) بتائی گئی ہے۔ پنڈورا پیپرز سے پتہ چلتا ہے کہ شارک اسٹیل لمیٹڈ بینک ایبل (قابل مبادلہ) اثاثوں کا ایک پورٹ فولیو اور 15 سے 20 ملین امریکی ڈالرز (3.4 ارب روپے) کی نقد رقم کا مالک ہے۔
تہمینہ زکریا احمد اور عائشہ انور کمپنی کے بینفشل اورنرز ہیں۔ اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی کہ آف شور ہولڈنگ کی کمپنی یا اثاثے پاکستانی ٹیکس حکام کو ظاہر کئے گئے ہیں یا نہیں۔ مزید یہ کہ لیک ہونے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ عمر فاروق کبیر شیخ BVI دائرہ اختیار میں رجسٹرڈ پرل اوورسیز ہولڈنگ لمیٹڈ کے بینفشل اورنرز میں سے ایک ہیں۔ ان اثاثوں کی تخمینہ قیمت 5 ملین امریکی ڈالر (850 ملین روپے) ہے۔ پنڈورا پیپرز سے پتہ چلتا ہے کہ ایکسائیڈ پاکستان لمیٹڈ کی حصہ دار لیلیٰ ہاشوانی ایک کمپنی سیورڈ ریسورسز لمیٹڈ کی مالک ہیں۔ اثاثوں کی تخمینہ قیمت 16.7 ملین GBP یعنی (2.83 ارب روپے) ہے۔ اسی طرح محمد کاشف اور خاندان کے دیگر افراد (چین ون گروپ) ایک آف شور کمپنی سی جی آئی لمیٹڈ کے مالک ہیں۔انکشاف کردہ دستاویز کے مطابق کمپنی کی تخمینہ قیمت 13.7 ملین یورو (630 ملین روپے) ہے۔
چین ون گروپ نے اپنے جواب میں بتایا کہ اس کمپنی کے قیام کا مقصد کوٹہ حکومت کے دور میں خلیج مارکیٹ اور دیگر عالمی منڈیوں میں کاروباری مواقع تلاش کرنا تھا۔ فی الحال کمپنی کے پاس کوئی ویئر ہاؤس نہیں ہے۔نوید مغیث شیخ اور فوزیہ مغیث شیخ ایک آف شور کمپنی بلیو مونک انویسٹمنٹ انکارپوریٹڈ کے مالک ہیں۔ کمپنی کا بیان کردہ مقصد جنیوا میں بینک جولیس بیئر اینڈ کمپنی لمیٹڈ میں ایک بینک اکاؤنٹ چلانا ہے تاکہ امپیریل شوگر لمیٹڈ کے حصص کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کو مشرق وسطیٰ کے ایک بڑے کاروباری گروپ کو پارک کیا جاسکے۔ فروخت کے نتیجے میں 40 تا 50 ملین ڈالرز کا نتیجہ سامنے آیا ہے جو کمپنی کے بینک اکاؤنٹ میں وصول کیے جانے ہیں۔ دی نیوز نے موغیث شیخ کو ایک سوالنامہ بھیجا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ لیک ہونے والی دستاویزات کے مطابق خالد آدم جی اور ان کا خاندان سنگاپور میں قائم ایک ٹرسٹ کیٹیو ٹرسٹ کا مالک ہے۔ ٹرسٹ کی دولت کا ذریعہ تجارتی اشیاء میں کاروبار خاص طور پر کرومیم دھات اور کوبالٹ میٹل کی فراہمی بیان کیا گیا ہے۔
لیک ہونے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرسٹ کے کل اثاثے 10 ملین سنگاپور ڈالرز (1.25 ار ب روپے) سے زیادہ ہیں۔ سوالات کا جواب دیتے ہوئے خالد آدم جی نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ وہ کیٹیو ٹرسٹ کے مالک تھے لیکن اسے بند کر دیا گیا ہے؛ میں سنگاپور میں مقیم ہوں ، بین الاقوامی اشیاء کی تجارت میں شامل ہوں؛ مصنوعات میں معدنیات ، دھاتیں اور کیمیکل شامل ہیں؛ ہم پاکستان ، جنوبی افریقا ، ہالینڈ ، بیلجیم ، ناروے ، برطانیہ ، کینیڈا اور چین سمیت مختلف ممالک سے خریدتے ہیں اور ہم پاکستان ، جرمنی ، اسپین ، سلوواکیہ ، تھائی لینڈ ، چین ، جاپان اور جنوبی کوریا سمیت مختلف ممالک کو فروخت کرتے ہیں؛ میں اور میرا خاندان 2009 سے سنگاپور کے مستقل رہائشی ہیں؛ 2010 میں اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ میں نے سنگاپور ہجرت کی اور ہم یہاں رہتے ہیں؛ اسی لیے میں نے سنگاپور میں ایک ٹرسٹ بنایا۔
ٹرسٹ کے پاس ٹرسٹ اور اثاثوں کے اعلان کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے کیٹیو ٹرسٹ / کریک ریسورسز لمیٹڈ کے تمام اثاثے پاکستان میں ٹیکس حکام (ایف بی آر) کو ڈکلیئر کیے ہیں۔ لیک ہونے والی دستاویزات سے پتہ چلا کہ ایک برطانوی پاکستانی پراچا خاندان لیمون ہولڈنگز لمیٹڈ کمپنی کا مالک ہے۔ کمپنی GBP 10 ملین (2.32 ارب روپے) کی مالک ہے اور یہ جائیداد کی ترقی، فروخت اور کرائے کے لیے جائیدادوں کی تخلیق نو میں شامل ہے۔ پاکستانی روپے میں ان اثاثوں کی قیمت کا تعین آج کی شرح تبادلہ سے کیا گیا ہے۔