انسپکٹر نوید سعید گجر : دبنگ پولیس افسر جس نے مار مار کر آصف زرداری کا بھرکس نکال دیاتھا۔۔۔۔ پڑھیئے عروج و زوال کی ایک سچی کہانی
لاہور (نیوز ڈیسک) پولیس مقابلوں کا ماہر اور بیسیوں افراد کو ہلاک کرنے والا کروڑ پتی برطانوی شہریت کا حامل انسپکٹر نوید سعید چند مرلے زمین کے جھگڑے میں اپنے ساتھیوں سمیت موت کے گھاٹ اتر گیا۔انڈر ورلڈ کے ٹاپ ٹین کو پولیس مقابلوں میں شوٹ کرنے سے نہ صرف اسے لاہور پولیس کی تاریخ اور مجرموں کے خلاف جنگ میں اہم باب کی حیثیت ملی۔
بلکہ وہ پنجاب پولیس کا ہیرو بن گیا۔ نوید سعید کی شہرت میں اس وقت زیادہ اضافہ ہو ا جب اس نے محلاتی سازشوں کا کردار بن کر پاکستان پیپلز پارٹی کے ایم پی اے سلیمان تاثیر کو پنجاب اسمبلی سے گرفتار کیا اور مزاحمت پر تھپڑ مارے اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے شوہر سینٹر آصف علی زرداری سے جسٹس نظام قتل کیس میں تفتیش کرنے کراچی پہنچا اور دوران تفتیش آصف زرداری کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس سے نہ صرف گردن پر زخم آئے بلکہ زبان کٹ گئی اور مار مار کر مبینہ طور پر بے ہوش کر دیا۔کبڈی کے کھلاڑی کے کوٹے پر بھرتی ہونے والا اسٹنٹ سب انسپکٹر اپنی بے باکی اورجرات کی وجہ سے جلد ہی اس وقت کے حکومتی ایوانوں میں داخل ہو گیا اور ان کی سیاسی شطرنج کی کھیل کا کھلاڑی بن گیا۔تقریباً 20سالہ پولیس ملازمت میں متعدد بار ملازمت سے معطل ہونے اور اپنے اثر ورسوخ سے بحال ہونے والا اور 12اکتوبر1999کو صدر پاکستان اور اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کو کراچی میں گرفتارکرنے کیلئے لاہور سے جانے والے خصوصی سکواڈ کی قیادت کرنے والا آخر کار نیب کے مقدمے سے بھی بچ نکلا ۔
مگرکروڑوں کی جائیداد اور دولت کا مالک ہو نے کے باوجود مزید دولت کی ہوس میںبرطانیہ سے واپس آتے ہی لینڈ مافیا میں شمولیت اختیار کر لی اور چند ماہ بعد ہی موت کے منہ میں چلا گیا ۔پنجاب پولیس کا انسپکٹر نوید سعید جہلم کے رہائشی ریٹائرڈ صوبیدار محمد سعید کا بیٹا تھا ۔وہ گیارہ بہن بھائی تھے اور ان کا تعلق وہاں کی مشہور گجر برادری سے تھا ۔جنہوں نے ابتدائی تعلیم دلوانے کے بعد نوید سعید کو لاہور بھیج دیا اور اس نے1982میں عارف ہائی سکول دھرم پورہ لاہور سے میٹرک کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا اور بعد ازاں پرائیویٹ ایف اے کرنے کے بعد پولیس میں ملازمت اختیار کر لی ۔ میجرمحمد اکرم لاہورپولیس کے اس وقت سربراہ تھے جن کی نوید سعید سے عزیز داری تھی انھوں نے اس وقت کے اے آئی جی منیر ڈار سے سفارش کی اور کبڈی کے کھلاڑی کے کوٹے پر نوید سعید کو 1984میں اے ایس آئی بھرتی کروا دیا۔زیر تربیت تھانیدار کی حیثیت سے اس کی پہلی پوسٹنگ ضلع قصور میں ہوئی جو اس وقت لاہور رینج کا ہی حصہ تھا پھر وہ تربیت کیلئے سہالہ چلا گیا ان دنوں محمد اکرم گجر تھانہ مصطفےٰ آباد میں ایس ایچ او تھا ۔
جو نوید سعید پر خاص شفقت کیا کرتا تھا ۔پولیس میں بھرتی کا شوق بھی نوید سعید کو انسپکٹر محمد اکرم گجرنے ڈالا تھا۔ اسی دوران پنجاب پولیس کی کبڈی ٹیم صوبائی چیمپئین شپ جیت گئی جس پر زیر تربیت تھانیدار نوید سعید کو براہ راست سب انسپکٹر کے عہدے پر ترقی مل گئی اور وہ قصور سے تبدیل ہو کر شاہین فورس لاہور میں آگیا ۔ تو اس کی ڈیوٹی جاوید شاہ ،اسلم ساہی مرحوم اور عمر سلیم چیمہ جیسے مشہور پولیس افسران کے ساتھ لگ گئی ۔سابق آئی جی سندھ اور ایس ایس پی لاہور رانا مقبول احمد کے دور میں نوید سعید لاہور کے اہم تھانوں میں تعینات رہا ۔یہ ایک مضبوط جسم کا دلیر پولیس افسر تھا اور اس وقت کے مشہور بدمعاش ،ڈکیت ، اشتہاری اور ٹاپ ٹین اس سے خوفزدہ رہتے تھے۔مشہور زمانہ دہشت کی علامت ملنگی ، ناجی بٹ ،اغوا اور کرائے کے قاتل ٹاپ ٹین میں شامل ہمایوں گجر،میاں داﺅد ،ثنا ، حنیف عرف حنیفا ، شفیق بابا اور اجرتی قاتل بھولا سنیارہ کو بھی نوید سعید نے پولیس مقابلوں میں ہلاک کیا تھا۔ اگرچہ بعد میں نوید سعید کی بعض ٹاپ ٹین سے دوستیاں ہو گئیں اور اس نے ٹاپ ٹین میں شامل لاہور کحنیف عرف حنیفا اور اس کے بھائی شفیق بابا کے ساتھ دوبئی میں ہوٹلنگ کے کاروبار میں شراکت داری بھی کر لی ۔
لاہورمیں اپنی شروع کی ملازمت کے دوران نوید سعید کا ایک مقامی گروہ سے معمولی بات پر جھگڑا ہو گیا تو نوید سعید نے اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ انھیں خوب مارا جس کے بعد اسے پہلوان کا لقب مل گیا کبڈی کا کھلاڑی وہ پہلے سے ہی تھا ۔ پولیس میں بھرتی ہونے کے بعد ترقی اور دولت دونوں ہی نوید سعید پر عاشق ہو گئے ۔نوید سعید پولیس مقابلوں کے بانی ڈی آئی جی رانا مقبول احمد کے قرابت دار ہونے کی وجہ سے ان کے بہت قریب رہا اور ان کے ہی دور میں اپنے پہلے شکار ٹاپ ٹین ملنگی کو مارا۔ملنگی نامی مجرم سے نہ صرف عوام بلکہ پولیس والے خود بھی خوفزدہ رہتے اوراسے گرفتار کرنے سے ہچکچاتے جب کسی بھی پولیس افسر نے اسے گرفتار کرنے کی حامی نہ بھری تو نوید سعید نے اسے گرفتار کرنے کا بیڑا اٹھایا چنانچہ جب ملنگی کو نوید سعید نے پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا تو اسے پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ہیرو کی حیثیت مل گئی جبکہ علاقے کے لوگوں نے بھی نوید سعید کی جرات کو سراہا۔ اس واقع کے بعد نوید سعید نے لاہور میں باقاعدہ تھانیداری کرنی شروع کر دی اور سرکاری ملازمت کے ساتھ پراپرٹی کا کاروبار بھی شروع کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کروڑپتی بن گیا اس کی پولیس میں شہرت امیر ترین پولیس آفیسر کے طور پر تھی۔
اسی دوران ایک لڑائی کے بعد مخالف فریق نے ایس ایس پی لاہور کو نوید سعید کے خلاف درخواست دی اور انکوائری کے بعد نوید سعید ملازمت سے برخاست ہو گیا یہ نوید سعید کی ملازمت سے پہلی برخواستگی تھی ۔1986 میں چند ہی ماہ بعد وہ ملازمت پر دوبارہ بحال ہو گیا اور بطور سب انسپکٹر ایس ایچ او تھانہ کاہنہ تعینات ہوا۔ پھر لاہور کے تمام بڑے تھانوں فیکٹری ایریا ، ہنجروال ، نولکھا ، شالیمار ، باٹا پور ، ٹبی ،راوی روڈ ، شفیق آباد ، اقبال ٹاﺅن ، شاہدرہ سمیت متعد د تھانوں میں بطور ایس ایچ او لگا ررہا وہ جہاں چاہتا اور جس تھانے میں چاہتا اپنی تعیناتی کروا لیتا تھا بلکہ اپنے دیگر قریبی دوستوں اور ساتھیوں کو بھی ان کے من پسند تھانوں میں تعیناتی کروادیتا تھااپنے دیگر ہم عصر پولیس ملازمین کی نسبت نوید سعید جلد ترقی پاتا رہا۔ دوران سروس وہ بڑے بڑے افسران کو بہت عزیز رہا خصوصاً سابق آئی جی سندھ رانا مقبول ،سابق ڈی آئی جی لاہور میجر محمد اکرم ، سابق آئی جی پنجاب پولیس حاجی حبیب الرحمن ،سابق ایس پی سٹی لاہور عمر سلیم چیمہ سمیت کئی افسروں کے ساتھ نوید سعید کے ذاتی تعلقات تھے ۔نوید سعید نے لاہور میں اپنے ماموں کی بیٹی کے ساتھ شادی کی جو برطانوی شہریت کی حامل تھی۔
اسی دوران ایک لڑائی کے بعد مخالف فریق نے ایس ایس پی لاہور کو نوید سعید کے خلاف درخواست دی اور انکوائری کے بعد نوید سعید ملازمت سے برخاست ہو گیا یہ نوید سعید کی ملازمت سے پہلی برخواستگی تھی ۔1986 میں چند ہی ماہ بعد وہ ملازمت پر دوبارہ بحال ہو گیا اور بطور سب انسپکٹر ایس ایچ او تھانہ کاہنہ تعینات ہوا۔ پھر لاہور کے تمام بڑے تھانوں فیکٹری ایریا ، ہنجروال ، نولکھا ، شالیمار ، باٹا پور ، ٹبی ،راوی روڈ ، شفیق آباد ، اقبال ٹاﺅن ، شاہدرہ سمیت متعد د تھانوں میں بطور ایس ایچ او لگا ررہا وہ جہاں چاہتا اور جس تھانے میں چاہتا اپنی تعیناتی کروا لیتا تھا بلکہ اپنے دیگر قریبی دوستوں اور ساتھیوں کو بھی ان کے من پسند تھانوں میں تعیناتی کروادیتا تھااپنے دیگر ہم عصر پولیس ملازمین کی نسبت نوید سعید جلد ترقی پاتا رہا۔ دوران سروس وہ بڑے بڑے افسران کو بہت عزیز رہا خصوصاً سابق آئی جی سندھ رانا مقبول ،سابق ڈی آئی جی لاہور میجر محمد اکرم ، سابق آئی جی پنجاب پولیس حاجی حبیب الرحمن ،سابق ایس پی سٹی لاہور عمر سلیم چیمہ سمیت کئی افسروں کے ساتھ نوید سعید کے ذاتی تعلقات تھے ۔نوید سعید نے لاہور میں اپنے ماموں کی بیٹی کے ساتھ شادی کی جو برطانوی شہریت کی حامل تھی۔
اس کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں ۔چھوٹا بیٹا قاسم پیدائشی بیمار ہے اس کے جسم پر نکلنے والے دانے نوید سعید کےلئے خاصی پریشانی کا باعث بنے رہے وہ اکثر اس کو جلد کے ممتازماہرین کے پاس لےجایا کرتا تھا اور بیرون ملک علاج بھی کرواتا رہا ۔ لاہور سمیت پنجاب کی بعض معروف اور بااثر سیاسی شخصیات کے ساتھ نوید سعید کا گہرا تعلق رہا ۔جبکہ صوبائی دارلحکومت لاہور میںجرائم کی دنیا کے ٹاپ ٹین میاں داﺅد ناصر ، ثنا گجر ، ناجی بٹ ، شفیق عرف بابا ، حنیف عرف حنیفا ، بھولا سنیارا ، ہمایوں گجر ، مقصود کالی ، شہباز عرف شہبازا، وحید عرف وحیدیاں وغیرہ نوید کے ساتھ کسی نہ کسی طرح رابطے میں رہے۔یہ تقریباً تمام لوگ اب مارے جا چکے ہیں اور ان میں سے بیشتر نوید سعید کے ہاتھوں ہی اپنے انجام کو پہنچے ان جرائم پیشہ افراد میں سے سب سے دلچسپ کہانی دونوں اشتہاری مجرم بھائیوں حنیف عرف حنیفا اور شفیق عرف بابا کی ہے جو اندرون شہر لاہور کے رہنے والے تھے ۔انھیں جرائم کی دنیا کا بے تاج بادشاہ کہا جاتا تھا ۔بڑے بڑے مجرم ان کے نام سے گھبراتے تھے ۔جب شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو اندرون شہر لاہور کے بعض شہریوں نے ان سے شکایت کی کہ یہ دونوں ٹاپ ٹین بھائی یہاں کے لوگوں کو حراساں کرتے ہیں۔
اور انسپکٹر نوید سعید ان کی پشت پناہی کرتا ہے تو انھوں نے نوید سعید کو بلا کر اسے سختی سے کہا کہ مجھے یہ دونوں بھائی حنیف عرف حنیفا اور شفیق بابا زندہ یا مردہ درکار ہیں جس پر نوید سعید نے ذاتی طور پر دونوں بھائیوں سے دوبئی میں رابطہ کیا اورپاکستان بلایا اور کراچی کے ایک ہوٹل میں ٹھہرنے کو کہا۔حنیف عرف حنیفا اپنے دیگر ساتھیوں داﺅد ،کالی اور ثناءکے ہمراہ جب ہوٹل میں موجود تھا توانسپکٹر نوید سعید نے ان سب کو گرفتار کر لیا اور لاہور لے آیا اور انھیں پولیس لائن قلعہ گوجر سنگھ میں ایس پی مجاہد سلیم چیمہ کے پاس لے گیا جبکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نوید سعید انھیں تھانہ شاہدرہ کے ایس ایچ او رانا فاروق کے پاس لے گیا ۔بہر حال اگلے روز ٹاپ ٹین اور ان کے ساتھی پولیس مقابلوں میں ہلاک ہو گئے اگرچہ اس وقت نوید سعید پولیس پارٹی میں شامل نہیں تھا۔ شفیق بابا نے نوید سعید کو دھمکی دی کہ اس نے بھائی بن کر مارا ہے اور اعتماد میں لے کر ایسا کچھ کیا ہے مگر نوید سعید نے قسم اٹھا کر اسے یقین دلانے کی کوشش کی کہ حنیف عرف حنیفا کی پولیس مقابلے میں ہونے والی موت میں اسکا کوئی ہاتھ نہیں مگر شفیق بابا نے اس کی بات پر یقین نہ کیا اور نوید سعید کو مارنے کی قسم کھائی چنانچہ شفیق بابا نے نوید سعید کو مروانے کی کئی بار کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہوسکا ۔
آخر کارسابق آئی جی سندھ پولیس رانا مقبول نے شفیق بابا کا فون ٹریس کر کے اس کے پاکستان آنے کے بارے میں معلومات حاصل کر لیں اور تب ایک دوست کے ذریعے اسے کراچی بلا یا اور ساتھی لڈا سمیت لاہور پولیس کے ہاتھوں گرفتار کروا دیا۔ شفیق بابا کو موقع پر ہی پولیس نے مقابلے میں مار دیا۔حنیف عرف حنیفااور شفیق بابا کے والد مستری تایا عیدو نے لاہور ہائی کورٹ میں نوید سعید اور دیگر کے خلاف جعلی پولیس مقابلوں میں اپنے بیٹوں کو ہلاک کرنے کی بابت لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر دی مگر بعد میں کچھ ہی عرصے بعد تایا عیدہ پراسرار طور پر غائب ہو گیا جس کا آج تک کوئی سراغ نہیں مل سکا ۔اس کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ تایا عیدہ کو اغوا کر کے ہلاک کروانے میں نوید سعید کا ہاتھ تھا ۔ انسپکٹر نوید سعید پنجاب پولیس کا ایک ایسا انسپکٹر تھا کہ جسے صوبائی دارلحکومت کی تاریخ ، جرائم اور مجرموں کے خلاف جنگ کے ایک اہم باب کی حیثیت حاصل تھی اس کی شہرت ایک دلیر ، جرات مند ،نڈر اور جری تھانیدار کی تھی جبکہ اعلیٰ پولیس افسران کو تما م ماتحتوں کی طرف سے کسی بڑے جرم پر ہاتھ ڈالنے سے معذرت کا جواب مل جاتا تو نوید سعید ان کا آخری انتخاب ہواکرتا تھا کیونکہ اپنی جان پر کھیل کر اعلیٰ حکام کے احکامات کی تعمیل کرنا اسکاپسندیدہ مشغلہ تھا ۔
اسے جس مجرم اور جس مقام پر چھاپہ مارنے کا حکم ملتا تونوید سعید اس کا انجام سوچے بغیر وہاں پہنچ جاتا تھا اور کر گزرتا تھا۔وہ جرائم پیشہ افراد کی آنکھوں میں آنکھیں اور ہاتھ میں ہاتھ ڈالنے کا فن جانتا تھا مجرم تک پہنچنے کیلئے نوید سعید نے انوکھا طریقہ اپنا رکھا تھا پہلے وہ ان مجرموں سے تعلقات استوار کرتا تھا اور پھر انھیں قانون کے شکنجے میں جکڑ لیتا۔ اس کو پولیس مقابلوں کا ماہر بھی کہا جاتا تھا۔اور جن خطرناک اشتہاری مجرموں پر کوئی دوسرا پولیس والا ہاتھ ڈالتے ہوئے گھبراتا یا جن ملزموں کے نام سے پولیس والوں کی ٹانگیں کانپتی تھیں تو وہ نوید سعید کے حوالے کر دیے جاتے تھے ۔ سرزمین پنجاب بالخصوص لاہور پر ٹاپ ٹین کا تمغہ سجائے پھرنے والے سبھی مجرموں میں سے بیشتر کا خاتمہ نوید سعید کے ہاتھوں ہی ہوا۔ بعض رپورٹوں کے مطابق نوید سعید نے دوران ملازمت تقریباً100افراد ہلاک کئے۔ اس کے خلاف جعلی پولیس مقابلوں کے متعدد پرچے بھی درج ہوئے جبکہ درجنوں جوڈیشنل انکوئریاں اب بھی زیر التو ہیں ۔ بعض افراد کے مطابق وہ خود بھی اس امر کا اقرار کرتا تھا کہ میری موت قتل کی صورت میں ہو گی۔ اس امر کا یقین نوید سعید کو اس لئے تھا کہ اس نے پولیس انسپکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ذاتی دشمنیاں بھی پال رکھی تھیں۔
اور دوران ملازمت سرکاری امور کی انجام دہی بھی اس نے اس انداز سے کی کہ وہ ذاتی مخالف میں تبدیل ہو گئی بہرحال اس کی جرات اور بہادری کی وجہ سے وہ جلد ہی سیاسی ایوانوں میں بھی پہچانا جانے لگا تو اس وقت کی حکومت نے اس سے اپنے کام لینے شروع کر دیے اور سیاسی حریفوں کو پولیس کے ذریعے حراساں کرنے کیلئے اکثر نوید سعید کی خدمات حاصل کی جاتی اس طرح کبڈی کا کھلاڑی حکومتی اور سیاسی شطرنج کی کھیل کا مہرہ بن گیا ۔انسپکٹر نوید سعید اس وقت اخبارات کی زینت زیادہ بنا کہ جب پنجاب اسمبلی سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایم پی اے سلیمان تاثیر کو گرفتار کرنے کی کوشش کی اور مزاحمت پر انھیں تھپڑ رسید کیا۔اگرچہ اس واقعہ کا اخبارات میں بہت چرچا رہا چنانچہ حکومت نے وقتی طور پر اسے معطل کر دیا مگر بعد ازاں پھر بحال ہو گیا ۔سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں جب سابق وزیر اعظم بے نظیر بٹھو کے شوہر آصف علی زرداری جسٹس نظام قتل کیس میں کراچی پولیس کی تحویل میں تھے تو لاہور سے انسپکٹر نوید سعید تفتیش کرنے کراچی گیا تھا جہاں پر متعدد رپورٹوں کے مطابق آصف علی زرداری کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور نوید سعید نے سابق آئی جی سندھ پولیس رانا مقبول احمد کی موجودگی میں گلاس توڑ کر مارا ۔
جس سے آصف علی زرداری کی گردن زخمی ہو گئی اور زبان کٹ گئی اور متعدد جگہوں پر ضربات آئیں اور انھیں بے ہوشی کے عالم میں آغا خان ہسپتال لے جایا گیا ۔ جس پر ان کی ہمشیرہ نے سندھ ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی جبکہ اس بارے میں سندھ پولیس کا کہنا تھا کہ آصف علی زردار ی نے خودکشی کرنے کی کوشش کی ۔انسپکٹر نوید سعید کی بے باکی کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ ڈی آئی جی شاہد حسن نے اس کے خلاف ایک درخواست پر انکوائری ایس پی میجر مبشر حسن کو مارک کر دی جس پر نوید سعید نے بہت احتجاج کیا اور انکوائری واپس لینے کو کہا مگر ڈی آئی جی نے میجر مبشر سے انکوائری واپس نہ لی تو نوید سعید ایک تقریب میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ میاں منظوراحمد وٹو کے سامنے پیش ہو گیا اوراپنے خلاف ہونے والی انکوائری پر شور ڈالا اور اپنی بیلٹ اتار کر وزیر اعلیٰ کے سامنے پھینک دی اور دونوں پولیس افسران کے خلاف نازیبا گفتگو کی جس پر اسے فوری طور پر ملازمت سے برطرف کر دیا گیا مگر یہ اپنے اثر ورسوخ کی وجہ سے جلد ہی پھر ملازمت پر بحال ہو گیا۔ جبکہ ٹھوکر نیاز بیگ میں ایک مذہبی تنظیم کے خلاف آپریشن میں بھی نوید سعید نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ نوید سعید لاہور پولیس کے افسران کا ایک چہیتا پولیس ملازم تھا ۔
جو ان کے احکامات کی ادائیگی کیلئے آخری حدیں بھی پار کر جاتا تھاجس کی وجہ سے یہ ان افسران کی نظر میں ایک اہم مقام رکھتا تھا ۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دوستوں کا دوست تھا اور ان کے مسائل حل کروانے کیلئے کوئی کسر نہ اٹھا رکھتا۔ جبکہ نوید سعید کے بارے میں مبینہ طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مخالف فریقوں سے کسی بھی شخص کو پولیس مقابلے میں قتل کرنے کے عوض کروڑوں روپے لیا کرتا تھا۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک سابق کونسلر کو مارنے کے عوض نوید سعید نے 25ملین روپے وصول کیے تھے جبکہ لاہور میں ہی ایک پارٹی نے اپنے مخالف کی ہلاکت پر انسپکٹر نوید سعید کی تاج پوشی کی تھی۔نوید سعید نواز شریف حکومت میں اتنا اہمیت رکھتا تھا کہ بعض ملکی سطح کے اہم معاملات میں بھی کردار ادا کرتا تھا ۔نوید سعید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب نواز شریف حکومت نے اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف اور موجودہ صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کو 12اکتوبر1999کو سری لنکا سے واپسی پر کراچی میں گرفتار کرنے کا پروگرام بنایا تو آئی جی سندھ پولیس رانا مقبول احمدنے اس کام کیلئے خاص طور پر لاہور سے انسپکٹر نوید سعید کی قیادت میں سکواڈ طلب کیا تھا۔نوید سعید سے متعلق ایک اور دلچسپ واقع بیان کرتے ہوئے ایک شخص نے بتایا۔
کہ نوید سعید پی ٹی وی کا ڈرامہ خواجہ اینڈ سنز بڑے شوق سے دیکھا کرتا تھا اور اس کی مرکزی کردار ثمینہ خالد کا بڑا فین تھا۔ اتفاق سے مذکورہ اداکارہ کے گھر کے صحن میں ایک کرایے کا قاتل پرویز عرف پیجا قتل ہو گیا جس کا الزام پولیس پر لگا کہ انھوں نے اسے پکڑ کر قتل کیا ہے۔اس ملزم کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ اسے تھانہ بی ڈویژن شیخوپورہ کے ایس ایچ او نے گرفتار کیا تھا جو ان دنوں لاہور رینج کا حصہ تھااور ڈی آئی جی لاہور شوکت جاوید لاہور رینج پولیس کے سربراہ تھے۔کہا جاتا ہے کہ نوید سعید نے ڈی آئی جی سے درخواست کی کہ یہ ملزم پرویز عرف پیجا میرے حوالے کر دیں کیونکہ اس کے خلاف میرے تھانے میں بھی متعدد مقدمات درج ہیں۔ ڈی آئی جی لاہور نے اس کی درخواست پر کہا کہ ملزم پیجا کو تم اپنے پاس لے آﺅ۔لیکن نوید سعید کے بعض قریبی ساتھیوں کا کہنا تھاکہ ڈی آئی جی نے تھانہ بی ڈویژن کے ایس ایچ او کو حکم بھیجاتھا کہ ملزم پرویز عرف پیجا کو نوید سعید کے حوالے کرو۔بہر حال بعد ازاں یہ ملزم مارا گیا تو یہ بات اڑ گئی کہ نوید سعید نے اداکارہ ثمینہ خالد کے گھر لے جا کر ملزم پیجا کو ہلاک کیا تھا لیکن اس امر کی تصدیق کھبی بھی نہیں ہو سکی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کرایے کے قاتل شہباز عرف شہبازا ،پپلی گورایہ والا، شہباز عرف شہبازو،جوڑا جنہیں کسی اور پولیس افسر نے پولیس مقابلے میں ہلاک کیا تھا ۔
نوید سعید کافی عرصے تک ان کے تعاقب میں رہا جبکہ گلو گجر کے مقتول بھائی کے قتل کا الزام بھی نوید پر لگا۔مگر یہ ثابت نہ ہو سکا ۔نوید سعید جب ایس ایچ او شاہدرہ تعینات تھے تو وہاں کسی لڑکی کے ساتھ بد اخلاقی کا واقع پیش آیااور نوید سعید نے ملزموں کو گرفتار کر لیا تب وزیر اعظم میاں نواز شریف موقع پر گئے اور فوری انصاف کی یقین دہانی کروائی چنانچہ بعد ازاں یہ ملزم بھی پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گئے۔ انسپکٹر نوید سعید نے اپنی ملازمت کی زندگی بہت کھٹن طریقے سے بسر کی اس کے اپنے اقدامات کی وجہ سے بہت سے اس کی جان کے دشمن بن چکے تھے جو ہر لمحے اس کی جان کے درپے رہتے متعدد بار اس پر قاتلانہ حملے اور ایک مرتبہ لاہور میں ایک پولیس مقابلے میں ایک ٹاپ ٹین مجرم نے گرنیڈوں سے نوید سعید پر حملہ کر دیا اس موقع پر تمام افراد فرار ہو گئے مگر نوید سعید ڈٹا رہا اور بال بال بچ گیا ۔ ان حالات میں اس کی سکیورٹی کا یہ عالم ہوتا تھا کہ جب انسپکٹر نوید سعید گھر سے باہر جاتا تو اس کے ہمراہ تیس تیس گن مین بطور گارڈ کے ہوتے جن میں کچھ پولیس ملازمین کے علاوہ دیگر سب اس کے قریبی احباب اور ساتھی ہوتے۔ بڑی بڑی اور قیمتی کاروں کے جلوہ میں تیس مسلح افراد کے ساتھ سفر کرتے ہوئے اس کو نہ جاننے والے عام شہری اس کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے۔
نوید سعید پولیس میں ملازمت کرنے کے ساتھ ساتھ پراپرٹی کا کاروبار بھی کرتا تھا اور جس کی وجہ سے اس نے بے تہاشہ دولت کمائی چنانچہ اس کے خلاف ناجائز اثاثہ جات کے الزام میں 2000میں نیب میں ریفرنس دائر ہوا اور اسکا نام ای سی ایل ( ایگزٹ کنٹرول لسٹ )میں درج ہو گیا تو نوید سعید بذریعہ ٹرین کوئٹہ سے ایران چلا گیا اور وہاں سے دوبئی اور پھر لندن چلا گیا۔اس کے پاس برطانیہ کا ریڈ پاسپورٹ بھی تھا ۔نیب کی عدالت میں اس کی عدم حاضری کی وجہ سے مقدمہ کا یکطرفہ فیصلہ ہو گیا اور نوید سعید کو تین برس قیدکی سزا ہو گئی مگر اس نے لندن سے ہی اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے نیب میں پلی بار گیننگ کے تحت زیر دفعہ 9(سی)آف نیب ایکٹ درخواست دی جو منظور ہو گئی اور مورخہ 19جنوری 2005کو ریفرنس نمبر 1/سی/2005 سے بری ہو گیا اور مقدمہ واپس لے لیا گیا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دوران مفروری یہ دو تین مرتبہ لاہور بھی آیا۔جبکہ برطانیہ میں قیام کے دوران اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر شو آرگنائزڈ کرواتا رہا ۔ بری ہونے کے بعد وہ پاکستان آگیا اورملازمت پر بحال ہونے کیلئے سروس ٹربیونل میں درخواست گزار دی اور جوہر ٹاﺅن میں رہائش اختیار کر لی ۔اس کی دلیری اور اثرورسوخ کی وجہ سے لینڈ مافیا نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا چنانچہ اس نے پراپرٹی کاکام دوبارہ شروع کر دیا اورفیصل ٹاﺅن کے رہائشی وحید بٹ کے ساتھ شراکت داری کر لی۔
برطانیہ سے آنے سے تقریباً تین سال قبل سے ہی وحید بٹ کی رائے ونڈ روڈ پر شاہ بابا عرف شانو اور اسکے بیٹوں بابر اور ندیم کے ساتھ شراکت پر کاروبار کرتا تھا ۔شانو بابا پراپرٹی کے کام میں ارب پتی پارٹی سمجھی جاتی ہے ۔ چند ماہ قبل ہی وحید بٹ کا ندیم اور بابر وغیرہ سے جھگڑا ہو گیا اور شراکت داری ختم ہو گئی مگر ایک پلاٹ پر تنازعہ پیدا ہو گیا ۔ یہ پلاٹ رائے ونڈ روڈ پر واقع تھا جسکا رقبہ 10کنال تھا جو بابر ، ندیم اور وحید بٹ نے تقریباً 250ملین روپے میں خریدا تھا جبکہ ان لوگوں کی شراکت داری ختم ہو گئی تو اس پلاٹ میں سے 8کنال بابر اور ندیم کے پاس آگئے جبکہ 2کنال وحید بٹ کے پاس آئے جس میں سے بعد میں وحید بٹ نے ایک کنال نوید سعید کو دے دیا۔ نوید سعید نے اس موقع پر خود درمیان میں بیٹھ کر وحید بٹ اور ندیم وغیرہ میں صلح کروادی اور پلاٹ وحید بٹ کے نام ہو گیا مگر چند ہی دن بعد جمعرات کو بابر وغیرہ نے اس پلاٹ پر قبضہ کر لیا ۔جب اس قبضے کی اطلاع وحید بٹ کو ملی تو وہ نوید سعید کے پاس آیا۔ اسے ساری بات بتلائی جس پر نوید سعید وحید بٹ ،مقصود احمدعرف پٹھانے خان ، ناصر خان ، مناں کھادی ، لڈو اور ظہیر بٹ کے ہمراہ وحید بٹ کی گاڑی میں سوار اپنے گن مینوں احمد علی ، نصیر ، ولایت وغیرہ کے ہمراہ رائے ونڈ روڈ پر متنازعہ پلاٹ پر پہنچا ۔
تو دیکھا کہ وہاں پربابر اور ندیم پارٹی کے افراد موجود تھے اور پلاٹ پر کام جاری تھا چنانچہ کام جاری دیکھ کر نوید سعید نے تھانہ چوہنگ سے پولیس کو طلب کر لیا اور انھیں بتایا کہ یہ لوگ قبضہ گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ پلاٹ میری ملکیت ہے چنانچہ نویدسعید کے بیان پرپولیس نے وہاں موجود ٹھیکیدار اور مزدوروں اور بابا کے آدمیوں کو گرفتار کرلیا ۔جبکہ مزدوروں کو بعد ازاں رہا بھی کروا دیا ۔ایس ایچ او ذولفقار بٹ نے اس موقع پر دونوں پارٹیوں کو تھانے میں آنے کو کہا مگر نوید سعید نے کہا کہ ہم دوسری پارٹی سے خود ہی بات کر لیں گے جس پر پولیس وہاں سے چلی گئی اس کے بعد نوید سعیدوغیرہ اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر واپسی کا پروگرام بنا رہے تھے جبکہ اس کے گن میں بھی اسلحہ کاروں میں رکھنے میں مصروف تھے اور آپس میں بات چیت کر رہے تھے کہ ندیم بابا اپنے بھائی ، بابر ، ساتھی انجم بٹ ،انجم اور خواجہ فاروق کے ہمراہ وہاں کار میں آئے جنہوں نے کار سے نکلتے ہی نوید سعید کو گالیاں نکالی شروع کر دیں اور کہا کہ آج ہم تمھاری پہلوانی نکال دیں گے اور انھوں نے آتشین اسلحہ سے ان پر فائرنگ شروع کر دی اور برسٹ مار کر چاروں کو چھلنی کر دیا۔ عینی شاہدین کے مطابق نوید سعید وغیرہ پر مخالفین نے تقریباً200گولیاں برسائیں ۔
نوید سعید اور وحید بٹ کے چہروں پر گولیاں لگیں جس کے بعد ندیم وغیرہ اپنا کام کر کے موقع سے فرار ہو گئے۔ نوید سعید کے گن مین جب اس کے قریب پہنچے تو نوید سعید موقع پر ہی ہلاک ہو چکا تھا جبکہ دیگر کو ہسپتال لے جایا گیا تو ممتاز بختاور ہسپتال میں وحید بٹ کی موت کی تصدیق ہو گئی اور میو ہسپتال پہنچ کر مقصود احمد عرف پٹھانے خان کی موت کی تصدیق ہو گئی ۔ فائرنگ کی اطلاع ملتے ہی پولیس کے اعلیٰ حکام موقع پر پہنچ گئے مگر کوئی ملزم بھی گرفتار نہ ہو سکا ۔ تھانہ ستو کتلہ پولیس نے نوید سعید کے بھائی جاوید سعید کی بیان پر پراپرٹی ڈیلر محمد اشرف عرف شانو بابا ،اسکے دو بیٹوں بابر بابا اور نوید بابا، خواجہ فاروق اور ندیم چوہان کے خلاف زیر دفعہ 302ت پ مقدمہ درج کر لیا ۔پولیس نے ملزموں کی گرفتاری کیلئے ملزمان کے گھروں پر چھاپے مارے جو اپنے گھروں کو تالے لگا کر پہلے ہی اپنی فیملیوں کے ہمراہ فرار ہو چکے تھےانسپکٹر نوید سعید کے قتل کی اطلاع جنگل کی آگ کی شہر میں پھیلتے ہی اس کے دوست احباب اور پولیس ملازمین میو ہسپتال پہنچ گئے۔پولیس افسران و اہلکار ایک دوسرے کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر روتے رہے جبکہ بعض پولیس اہلکاروں نے کہا کہ استاد نوید پہلوان کی موت کا بدلہ ہم لیں گے اس موقع پر میڈیا کے نمائند ے اور فوٹو گرافر بھی موجود تھے ۔
اس واقعے کا دوسرا مقتول وحید بٹ پانچ بچوں کا باپ فیصل ٹاﺅن لاہور کا رہائشی تھا جو ٹائروں کا کام کرتا تھا مگر بعد ازاں پراپرٹی کا کام شروع کر دیا اور کچھ ہی عرصے میں کروڑ پتی ہوتا چلا گیا۔یہ انسپکٹر نوید سعید کا قریبی دوست تھا اور اسے اسکی مکمل پشت پناہی حاصل تھی ۔جب نوید سعید تھانہ راوی روڈ میں تعینات تھا تب اس کی دوستی وحید بٹ سے ہوئی تھی جبکہ تیسرا مقتول سید پور سبزہ زار کا رہائشی مقصود احمد عرف پٹھانے خان تھا یہ بھی پانچ بچوں کا باپ تھا اور ڈیوٹی فری شاپ میں منی چینجر کا کام کرتا تھا اور بعد میں نوید سعید کے ساتھ دوستی ہو گئی۔نوید سعید نے اسے اپنا بھائی بنا رکھا تھا اور اس پر بڑا اعتماد کرتا تھا۔نوید سعید جہاں پر بھی جاتا پٹھانے خان اس کے ہمراہ جاتا تھا۔جبکہ دوسری طرف حنیف عرف حنیفا اور شفیق عرف بابا کے بھائی اور دیگر خاندان کے لوگوں نے اندروں شہر میں مٹھائی تقسیم کی اور خوشیاں منائی گئی۔ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے کردار موجود ہیں کہ جنہوں نے کسی نہ کسی شعبے میں نام پیدا کیا ہے جن لوگوں نے بنی نوع انسانوں کیلئے اور ان کی بھلائی کیلئے اچھے اچھے کیے ان کا نام آج بھی پہچانا جاتا ہے جبکہ ایسے بھی بہت سے کرادر موجود ہیں کہ جنہوں نے برے کاموں میں شہرت کمائی اور دولت اور جائیداد کی ہوس میں اچھے برے کی تمیز بھلادی ۔بدقسمتی سے یہی دولت اور جائیداد ان کی دشمن بن جاتی ہے اور انھیں استعمال کرنا بھی نصیب نہ ہوتااور مزید دولت ، شہرت اور جائیداد کی طلب میں موت کے منہ میں چلے گئے۔جبکہ اپنی حدوں کو کراس کروانے لوگوں کی روحیں زندگی کی حدیں کراس کر جاتی ہیں۔