حافظ قرآن تھے اور اِمامت بھی کرواتے تھے ۔۔ کینسر سے انتقال کرنے والے ہاشم رضا نے موت سے چند دن پہلے معافی مانگتے ہوئے کیا خواہش کی تھی؟
پاکستان کا باہمت نوجوان ہاشم رضا سوشل میڈیا پر اس وقت مقبول ہوا جب ان میں کینسر کی تشخیص سامنے آئی اور ان کے لیے سوشل میڈیا پر باقاعدہ طور پر مہم بھی چلائی گئی تاکہ کوئی خدا کا نیک بندہ ان کے باہر جانے کا بندوبست کر سکے کیونکہ ان کا علاج بیرونی ممالک میں ہی ممکن تھا۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے ہاشم رضا مضبوط دل کے مالک تھے شاید وہ بات جان چکے تھے کہ ان کا وقت دنیا میں پورا ہونے والا ہے اس لیے ان کے دل ڈر خوف نکل چکا تھا۔
ہاشم رضا کے والد اپنے بیٹے کے انتقال پر کافی غمزدہ ہیں اور آنکھوں میں آنسو لیے انہوں نے اپنے بیٹے کی یاد میں ان کے بارے میں باتیں بتائیں۔
ہاشم کے والد نے بتایا کہ میرا بیٹا نڈر، سمجھدار، ہمت والا، سچا اور لوگوں میں خوشیاں بانٹنے والا لڑکا تھا۔ اس کو اللہ پر پختہ یقین تھا کہ مجھے کینسر سے جنگ جیتنی ہے، میں نے کینسر کو شکست دینی ہے۔
میرا بیٹا مجھے کہتا تھا کہ بابا میں جس حالت سے گزر رہا ہوں آپ نہیں سمجھ سکتے، مجھے ڈیڑھ سال بیمار رہتے ہوگئے ہیں اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو مجھے معاف کردیں۔ ہاشم رضا کے والد نے بیٹے کے حوالے سے بتایا کہ انسان کو دسروں کے لیے جینا چاہئے اور خوشیاں بانٹنی چاہئیں۔ ہاشم اپنے سے زیادہ دوسروں کا کرتا تھا۔
ہاشم رضا کے استاد محترم نے بھی مرحوم ہاشم کے بارے میں یادیں شئیر کیں۔ ہاشم کے استاد اور ان کے بزنس پارٹنر نے بتایا کہ وہ لڑکا اپنی زندگی سے بہت آگے چلتا تھا۔
ہاشم کے دوست نے بتایا کہ میں نے خود ہاشم سے بہت سی نئی چیزیں سیکھی ہیں، اس کا بہت مضبوط نیٹ ورک تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہاشم حافظ قرآن بھی تھا اور ساتھ ہی آفس میں جب سب آتے اور نماز کا وقت ہوتا تو وہ امامت بھی کرواتا تھا۔
ہاشم رضا جیسے نوجوانوں کی قدر کرنا ریاست کا فرض ہوچا چاہیئے کیونکہ ایسے ہی لوگ ملکی ترقی میں اپنا معاون کردار ادا کرتے ہیں۔