میں حرم شریف گئی، وہاں ایسا جنازہ آیا جو ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔۔ وہ جنازہ اتنا بھاری کیوں تھا؟ ایمان افروز واقعہ
اللہ کا گھر دیکھنے کی خواہش ہر انسان کی ہوتی ہے۔ وہاں جانا، اپنی آنکھوں سے سنہری جالیاں دیکھنا، وہاں راتوں کا قیام، نمازوں کا سکون زندگی میں ایک مرتبہ حاصل کرنا ہر مسلمان کی دلی آرزو ہوتی ہے۔ خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو اللہ اپنے گھر پر بُلائے۔
اس سے بھی زیادہ خوش نصیبی کسی بھی مسلمان کے لیے یہی ہے کہ اللہ کے گھر میں ہی دم توڑے اور اپنی آخری سانسیں حرم شریف میں لے، وہیں اس کا جنازہ پڑھایا جائے۔
حرم شریف میں ہر نماز کے بعد لوگوں کے جنازے پڑھائے جاتے ہیں، ایک سے دو یا جتنے اس وقت لائے جاتے ہیں تاکہ ایک ہی وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی نماز پڑھائی جا سکے۔ اسی حوالے سے پنجاب اسمبلی کی ایم پی اے سعدیہ سہیل نے اپنی ایک ویڈیو میں ایمان افروز واقعہ بتایا جس کو سن کر شاید آپ بھی افسوس کریں۔
سعدیہ سہیل بتاتی ہیں کہ: ” جب میں عمرے پر گئی تو وہاں میری لوگوں سے بات ہوئی، جب میں نے دیکھا کہ یہاں ہر نماز کے بعد جنازے پڑھائے جاتے ہیں تو میں نے کسی سے پوچھا کہ کیا یہاں کسی پاکستانی کا جنازہ بھی پڑھایا جاتا ہے؟ اس کا جواب سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ کسی کا ایمان اتنا کمزور بھی ہوسکتا ہے۔ ”
ایک شخص نے مجھے بتایا کہ یہاں ہر کسی کا جنازہ پڑھایا جاتا ہے چاہے وہ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتا ہو۔ ایک مرتبہ یہاں ایک جنازہ آیا وہ حرم شریف کے باہر رکھا ہوا تھا۔ انتظار کیا جا رہا تھا کہا اگر کوئی اور بھی ہے تو وہ ساتھ ہی پڑھا دیا جائے گا۔ لیکن جب اس جنازے کو اٹھانے کی کوشش کی گئی
تو وہ اس قدر بھاری تھا کہ وہ اٹھایا ہی نہیں جا رہا تھا۔ اتنے ڈھیروں لوگوں نے کوشش کی مگر یہ ممکن نہ ہوسکا۔ پھر امامِ کعبہ سے پوچھا گیا کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ جنازہ کسی طور اٹھایا نہیں جا رہا۔ اس کے بعد امامِ کعبہ نے اس شخص کے گھر والوں کو بلایا جس کا جنازہ نہیں اٹھایا جا رہا تھا۔
مرحوم کا بیٹا حاضر ہوا، اس سے امام صاحب نے سوال کیا کہ کون ہو تم لوگ؟ اس نے بتایا کہ ہم یہاں پاکستان سے آئے تھے، میرے والد پچھلے 40 سال سے یہیں حرم کے سامنے رہتے ہیں۔ پھر سوال کیا کہ کیا کبھی 40 سال میں تمہارے والد حرم کے اندر آئے؟ کبھی کوئی نماز یہاں ادا کی؟ جس کے جواب میں بیٹا پہلے خاموش ہوگیا پھر جواب دیا کہ میں آپ سے جھوٹ نہیں کہہ سکتا لیکن ابو نے یہاں کبھی بھی کوئی بھی نہ تو نماز ادا کی، نہ دعا کی اور نہ ہی کبھی کوئی اذان کا جواب دیا۔
اس پر امامِ کعبہ نے جواب دیا: ” کیا یہ ممکن ہے کہ 40 سال میں کوئی شخص اپنی زندگی میں حرم کے اندر نہ گیا ہو، کبھی قدم رکھا ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مرنے کے بعد بھی اس جگہ قدم رکھ سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ان کا جنازہ یہاں حرمِ پاک میں نہیں پڑھایا جا سکتا۔ ”