اس مشکل کا میراثی نے کیا حل نکلا اور پھر کیا دلچسپ واقعہ پیش آیا؟
نامور کالم نگار علی عمران جونیئر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔گدھا بھی بڑی عجیب قسمت رکھتا ہے ہم ہر معاملے میں مغرب
(امریکا وغیرہ) کی نقالی کرتے ہیں مگر گدھے کے معاملے میں نہیں، یعنی ہم گدھے کو گدھا ہی سمجھتے ہیں اور کسی پر حقارت سے طنز کرنا ہو تو بھی
اسے ’’گدھے‘‘ کے لقب سے نواز دیتے ہیں جب کہ امریکا جیسے روشن خیال ملک میں گدھے کو سیاسی پارٹی کا نشان بنا کر عزت و تکریم
دی جاتی ہے۔گدھے اور گدھی میں فرق یہ ہے کہ گدھا ہوتا ہے اور گدھی ہوتی ہے۔ گدھا گاڑی میں صرف گدھے کو جوتا جاتا ہے جبکہ گدھی صرف گدھی گیڑ کے کام آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک میراثی نے گدھی پال رکھی تھی۔ وہ
جب اس سے ناراض ہوتی تو کان کھڑے کر لیتی اور اسے ایک عدد لات جڑدیتی۔ میراثی نے سوچا کہ ضرور اس کے کان میں کوئی گڑ بڑ ہے جو یہ لات مارنے سے پہلے اظہار ناراضی کے لیے
کان کھڑے کرلیتی ہے۔ چنانچہ اس نے ایک دن اس کے دونوں کان درانتی سے جدا کر دیے۔ اس کے بعد جب بھی وہ قریب سے گزرتا وہ اسے لات جڑدیتی، جس پر میراثی بولا کہ کم از کم کانوں سے یہ تو پتا چل جاتا تھا کہ یہ ناراض ہے ۔۔یک دُور دراز کے گاؤں میں ایک سیاستدان کی تقریر تھی300 کلو میٹر ٹُوٹی پُھوٹی سڑکوں پر سفر کرنے کے بعد جب وہ تقریر کی جگہ پر پہنچے تو دیکھا کہ صرف ایک کسان تقریر سُننے کے لئے بیٹھا ہُوا تھا۔اس اکیلے شخص کو دیکھ کر سیاستدان کو سخت مایوسی ہُوئی، اور نہایت افسردہ انداز میں کہنے لگے،بھائی، آپ تو صرف اکیلے آدمی آئے ہو، سمجھ میں نہیں آتا کہ اب میں تقریر کروں یا نہیں؟کسان نے جواب دیا۔۔ صاحب جی، میرے گھر میں بیس گدھے ہیں، اگر میں انہیں چارہ ڈالنے جاؤں
اور دیکھوں کہ ۔۔وہاں صرف ایک گدھا ہے اور باقی دوڑ گئے ہیں تو کیا میں اس ایک گدھے کو بھی چارہ نہ ڈالوں؟ اور اسے بھی بُھوکا رہنے دوں؟؟کسان کا بہترین جواب سُن کر سیاستدان بہت خُوش ہُوا، اور ڈائس پر جا کر اس اکیلے کسان کے لئے دو گھنٹے تک پُرجوش انداز میں تقریر کرتا رہا۔تقریر ختم کرنے کے بعد، وہ ڈائس سے اُتر کر سیدھا کسان کے پاس آیا اور بولا،تُمہاری گدھے والی مثال مجھے بہت پسند آئی،، اب تُم بتاؤ، تُمہیں میری
تقریر کیسی لگی؟کسان کہنے لگا۔۔صاحب انیس گدھوں کی غیرموجودگی کا یہ مطلب تو نہیں کہ بیس گدھوں کا چارہ، ایک گدھے کے آگے ڈال دیا جائے۔۔ایک دیہاتی کا گدھا مسجد میں گھس گیا۔۔مولوی صاحب بڑے ناراض ہوئے اور گدھے کے مالک کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔۔اپنے گدھے کو باندھ کر رکھا کرو، تمہیں پتہ نہیں یہ مسجد ہے۔۔ گدھے کے مالک نے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے معافی طلب کی اور بھولپن سے کہا۔۔مولبی صیب، بے جبان جناور ہے،غلطی سے مججدمیں آگیا، تیں قسم کھاکے بول، میرے کو کبھی مججد میں دیکھا ہے؟۔۔جنگلی گدھا شہر میں چلاآیا، اس کی ملاقات ایک شہری گدھے سے ہوئی، شہری گدھے نے علیک سلیک کے بعد دل کی بھڑاس نکالنا شروع کی۔۔میرا مالک بہت ظالم ہے گھاس بھی کم دیتا ہے۔ کام بھی زیادہ لیتا ہے۔ اور زدوکوب بھی کرتا ہے۔۔جنگلی گدھے کو یہ سب سن کر بہت افسوس ہوا، اس نے مشورہ دیا۔۔تو تم اس کو چھوڑ کر جنگل کیوں نہیں بھاگ جاتے۔ میرے ساتھ چلو وہاں عیش کی زندگی گزاریں۔
۔شہری گدھا کہنے لگا۔۔چلتا تو تمھارے ساتھ مگر بس روشن اور سنہرے مستقبل کی امید میں رکا ہوا ہوں۔ دراصل میرے مالک کی بیٹی بہت خوبصورت ہے جسکا پڑھنے میں بالکل دل نہیں لگتا۔ شرارتیں بہت کرتی ہے۔اب اسکے باپ نے کہا ہے اگر اس بار بھی پاس نہ ہوئی، شرارتیں کرنا نہیں چھوڑی تو اسی گدھے سے تمہاری شادی کر دوں گا۔ بس اسی لئے آس لگائے بیٹھا ہوں۔لکھنؤ کے ایک نواب صاحب کو کسی نے گدھا کہہ دیا۔۔!!نواب صاحب کو یہ بہت ناگوار گزرا اور انہوں نے کورٹ میں کیس کر دیا۔۔۔!جج نے گدھا کہنے والے سے پوچھا تو اس نے اعتراف کرتے ہوئے اپنی غلطی مان لی۔۔اور اپنے کہے پر شرمندہ ہوکر معافی مانگ لی۔۔جج نے نواب صاحب سے کہا نواب صاحب اب تو یہ معافی مانگ رہا ہے آ
پ کا کیا کہنا ہے۔۔اس پر نواب صاحب معافی کے لیے تیار ہو گئے۔۔ لیکن ایک شرط رکھی کہ اب کسی بھی نواب کو وہ گدھا نہیں بولے گا۔۔!!جج نے مجرم کو بری کردیا۔۔!!جانے سے پہلے اس آدمی نے جج سے پوچھا۔۔ یور آنر، میں نواب صاحب کو تو قطعی گدھا نہیں بولوں گا لیکن ایک بات بتائیے، گدھے کو تو میں نواب صاحب بول سکتا ہوں کہ نہیں؟جج نے کہا گدھے کو آپ کچھ بھی بولیے، کورٹ کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔۔ !!!وہ آدمی نواب صاحب کی طرف مُڑا اور بولا۔۔ اچھا تو’’نواب صاحب‘‘ مَیں چلتا ہوں۔۔اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔سیاست دان ’’بندروں‘‘ کی طرح ہوتے ہیں، آپس میں اختلاف ہوجائے تو لڑلڑکرباغ تباہ کردیتے ہیں اور اتفاق ہوجائے تو مل جل کر باغ کھاجاتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔