in

وہ میرے خواب میں آیا اور کہا کہ اب مت رونا۔۔ جانیے ان شہید جوانوں کی ماؤں کی رُلا دینے والی یادیں، جو آپ کو بھی افسردہ کردے گی

وہ میرے خواب میں آیا اور کہا کہ اب مت رونا۔۔ جانیے ان شہید جوانوں کی ماؤں کی رُلا دینے والی یادیں، جو آپ کو بھی افسردہ کردے گی

شہادت ایک ایسا رتبہ ہے جو کہ بڑی محنت و مشقت کے بعد ملتا ہے، لیکن اس شہادت سے جہاں لوگ فخر محوس کرتے ہیں وہیں شہید ہونے والے کی ماں اگرچہ فخر محسوس کرتی ہے، مگر ماں تو پھر ماں ہی ہے نا۔ شہید جوانوں کی مائیں ان کے بعد اب بھی انہیں یاد کر کے کس طرح اشکبار ہو رہی ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی گئی اس ویڈیو میں پاکستانی فوج کے شہید جوانوں کی مائیں اپنے تاثرات دے رہی ہیں۔

کیپٹن جنید کی والدہ نے جب اپنے بیٹے کے بارے میں بتایا تو وہ اشکبار ہو گئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یاد تو وہ آئے جو بھولے، وہ مجھے کبھی بھولا ہی نہیں۔ ان کی اشکبار آنکھیں، اور آواز بخوبی اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے ان کی نگاہیں ہر وقت بیٹے کو تلاش کرتی رہتی ہیں۔

میجر علی سلمان کی والدہ نے اپنے بیٹے کی یاد کو کچھ اس طرح تازہ کیا کہ اس پورے گھر میں اس کی آوازیں گونجتی ہیں۔ وہ اوپر منزل سے مجھے آوازیں لگاتا تھا، امی، امی۔ وہ آوازیں اب بھی میرے کانوں میں آرہی ہیں۔میجر علی سلمان کی والدہ جب انہیں یاد کر رہی تھیں تو وہ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ وہ اس پورے منظر کو اپنی آںکھوں کے سامنے دیکھ رہی ہوں۔

عمر شہزاد شہید کی والدہ کہتی ہیں کہ مجھے ابھی بھی لگتا ہے کہ وہ سیڑھیوں سے آرہا ہے، کبھی گھر میں داخل ہو رہا ہے۔ یہ بات کہتے وقت وہ اس بات کو بھی سوچ رہی تھیں کہ میرا بیٹا اب کبھی نہیں مل پائے گا مجھے۔کیپٹن روح اللہ شہید کی والدہ کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے بیٹے کو خواب میں دیکھا تھا، اسے پکارا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو خوابوں ہی میں دیکھ کر اپنے آپ کو تسلی دے رہی ہیں۔

شہید احمد مبین کی والدہ کہتی ہیں کہ جب کبھی دروازے پر گھنٹی بجتی ہے، مجھے لگتا ہے کہ میرا لخت جگر آ گیا ہے، مگر پھر خیال آتا ہے کہ وہ تو اب آ ہی نہیں سکتا۔ والدہ بیٹے کو یاد کر کے رو جاتی ہیں۔والدہ کا مزید کہنا تھا کہ مبین تو ایک دن میرے خواب میں بھی آیا تھا اور کہہ رہا تھا کہ امی رونا بند کر دیں۔ اگر وہ خواب میں نہ آئے تو مجھ سے صبر نہیں ہوتا اور رو دیتی ہوں۔شہید کی والدہ اگرچہ اردو نہیں بول پاتی مگر ان کے جذبات ہر کوئی سمجھ رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بیٹا گھر میں چہل قدمی کر رہا ہے۔

میجر مدثر کی والدہ کہتی ہیں کہ وہ مجھے جاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ مجھے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ نظر آتے ہیں، جیسے کہ جھلک سی آئی ہو۔ مگر وہ کچھ کہتے نہیں ہیں بس مسکراتے ہیں۔ بات کوئی نہیں کرتے۔شہید اصغر علی کی والدہ اب بھی دروازے پر کھڑی ان کا انتظار کرتی ہیں، لیکن جب خیال ٹوٹتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے اور آنسوں جھلک ہی جاتے ہیں۔

شہید پرویز خان کی والدہ نے کچھ ایسا کہا ہے جسے سن ہو سکتا ہے آپ بھی حیران ہو جائیں۔ ایک ماں ہو کر بھی وہ یہ کہہ رہی تھیں کہ شکر الحمداللہ وہ پاکستان کے لیے شہید ہوا ہے۔ جس طرح جذبہ سے وہ یہ کہہ رہی تھیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر محبت کرنے والی اس مٹی کی خاطر جان تک قربان کرنے کا جذبہ رکھنے والی ماں ہیں۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

”دولت کے لیے دنیا کے سب وظائف کا بادشاہ وظیفہ

پس اے لوگو! لوٹ آؤ اپنے رب کی طرف جو بے حد مہربان اور رحیم و کریم ہے