کالج کی کرکٹ ٹیم کا بارھواں کھلاڑی سوئنگ کا سلطان کیسے بنا ؟ وسیم اکرم کے کیرئیر کی سچی کہانی
کالج کی کرکٹ ٹیم کا بارھواں کھلاڑی سوئنگ کا سلطان کیسے بنا ؟ وسیم اکرم کے کیرئیر کی سچی کہانی
لاہور (ویب ڈیسک) نامور صحافی عبدالرشید شکور بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ لاہور کے ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو ٹیبل ٹینس کا صف اول کا کھلاڑی بننا چاہتا تھا اور جو کرکٹ محض وقت گزارنے کے لیے کھیل رہا تھا۔ تعلیم میں اس کی دلچسپی
صرف فائن آرٹس کی ڈگری کے حصول کے لیے تھی۔اس صورتحال میں اگر کوئی اس نوجوان سے یہ کہہ دیتا کہ تم اپنے دور کے ورلڈ کلاس کرکٹرز کے ساتھ کھیلو گے تو کیا اِس سے بڑا مذاق کوئی اور ہو سکتا تھا؟لیکن پھر صرف چھ ماہ کے مختصر عرصے میں سب کچھ بدل گیا۔تین جون 1966 کو پیدا ہونے والے وسیم اکرم کو دنیا کا بہترین لیفٹ آرم فاسٹ بولر کہا جاتا ہے لیکن جب ان کے ابتدائی دور پر نظر ڈالیں تو گمنامی سے اچانک شہرت کی بلندی پر پہنچنے کی یہ کہانی انتہائی حیران کُن معلوم ہوتی ہے۔وسیم اکرم نے اپنی سوانح حیات ’ Wasim‘ میں لکھا ہے ’ہم لاہور ماڈل ٹاؤن میں رہتے تھے۔ میرے والد کا سپیئر پارٹس کا کاروبار تھا۔ میرے والدین ہم بہن بھائیوں کی تعلیم کے معاملے میں بہت سخت تھے اسی لیے انھوں نے ہمیں اچھے سکول میں داخل کرایا اور تمام ضروری سہولتیں فراہم کیں۔‘بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے وسیم اکرم نے بتایا کہ ’جب میں بارہ سال کا تھا تو میں اپنی والدہ کے ساتھ مزنگ میں اپنی نانی کے گھر رہنے لگا تھا کیونکہ میرے والدین میں علیحدگی ہو گئی تھی۔ میں اپنے سکول میں تمام کھیل کھیلا کرتا تھا لیکن نویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے میرا رجحان کرکٹ کی طرف بہت زیادہ ہو گیا تھا۔‘وسیم اکرم کو اپنے پڑوس میں رہنے والے وہ چار بھائی شہباز، اعجاز، شاہد اور ذوالفقار اب بھی اچھی طرح یاد ہیں جن کے ساتھ وہ یونیورسٹی گراؤنڈ جا کر سٹمپس اور بیلز لگا کر ٹینس بال سے میچ کھیلا کرتے تھے۔
’یونیورسٹی کے مرکزی گراؤنڈ میں ہمیں کھیلنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ ہم پچھلی طرف کا کوئی حصہ تلاش کرتے تھے جہاں گھاس ہو اور ہم کرکٹ کھیل سکیں۔ میں جب یونیورسٹی گراؤنڈ کے قریب سے گزرتا تو سوچتا تھا کہ یااللہ میں بھی کبھی اس گھاس والے خوبصورت گراؤنڈ میں کھیل پاؤں گا یا نہیں۔‘وسیم اکرم اپنی گفتگو میں اس دور کے ایک فرسٹ کلاس کرکٹر خالد محمود کا ذکر کرنا نہیں بھولتے جن کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں انھوں نے باقاعدہ کلب کرکٹ شروع کی۔وہ بتاتے ہیں ’میں ٹینس کی گیند سے کھیلا کرتا تھا اور لوگ مجھے اپنے ٹورنامنٹس میں کھلانے کے لیے دور دور سے آتے تھے۔ خالد محمود مزنگ میں ہمارے محلے میں رہتے تھے اور کسٹمز کی طرف سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ ایک دن انھوں نے مجھے کھیلتے دیکھا تو کہنے لگے کہ تم کرکٹ کی گیند (ہارڈ بال) سے کیوں نہیں کھیلتے کیونکہ تم میں ٹیلنٹ موجود ہے اور تم اچھے کرکٹر بن سکتے ہو۔‘’میں نے انھیں جواب دیا کہ کرکٹ کی گیند کے پیسے کہاں سے لاؤں اور دوسری بات یہ کہ مجھے کسی کلب کے نیٹ کا نہیں پتہ۔ پھر ایک دن خالد محمود مجھے سائیکل پر اپنے کلب ’لدھیانہ جمخانہ‘ لے گئے جہاں صدیق خان مرحوم اور سعود خان کوچ ہوا کرتے تھے۔ خالد محمود کئی روز تک مجھے باقاعدگی سے سائیکل پر وہاں لے جاتے رہے جس سے ان کے خلوص اور میری کرکٹ سے ان کی دلچسپی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کوچ سعود خان سے کہا کہ یہ
لڑکا اب آپ کے حوالے۔‘وسیم اکرم کے ذہن میں آج بھی لدھیانہ جمخانہ میں کوچ صدیق خان، سعود خان اور چاچا صدیق کی یادیں تازہ ہیں۔’میں دوپہر ڈھائی بجے گراؤنڈ پہنچتا تھا اور دوسرے نوجوان کرکٹرز کے ساتھ پہلے نیٹ لگاتا تھا پھر پچ کی آدھی سائیڈ کی مٹی پر پانی ڈالتے تھے جس کے بعد پریکٹس شروع ہوتی تھی۔ اس میدان میں متعدد کلبوں کے نیٹ لگا کرتے تھے جہاں سو سے زیادہ لڑکے ہوا کرتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب صدیق خان، سعود خان اور چاچا صدیق میرا بہت خیال رکھتے تھے اور ہر روز اپنے خرچ پر نئی گیند لا کر مجھے دیتے کہ اس سے گیند کرو۔‘وسیم اکرم نے بتایا کہ ’جب میٹرک کے بعد کالج میں داخلے کا وقت آیا تو میرے نمبر اچھے نہیں تھے لیکن چونکہ کرکٹ اچھی کھیلنے لگ گیا تھا لہذا میں گورنمنٹ کالج اوراسلامیہ کالج دونوں کے ٹرائلز میں منتخب ہو گیا۔ مجھے کوچ صدیق خان نے مشورہ دیا کہ تم اسلامیہ کالج سول لائنز میں داخلہ لو کیونکہ اس کی کرکٹ ٹیم اچھی ہے۔‘وسیم اکرم بتاتے ہیں ’کالج میں داخلہ تو مل گیا لیکن پہلے سال کھیلنے کا موقع ہی نہ مل سکا کیونکہ کالج ٹیم کا کپتان بھی لیفٹ آرم تیز بولر تھا لہذا میں بارہواں کھلاڑی ہی بنا رہا۔ جب سیکنڈ ایئر میں پہنچا تو مجھے کالج کی ٹیم کی طرف سے کھیلنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی کیونکہ اس وقت تک میرا پاکستانی کرکٹ ٹیم میں بلاوا آ چکا تھا۔‘لدھیانہ جمخانہ کے کوچ سعود خان بی بی سی سے بات کرتے
ہوئے لاہور جمخانہ کے خلاف وہ میچ یاد کرتے ہیں جس میں وسیم اکرم نے چار کھلاڑی آؤٹ کیے تھے جن میں رمیز راجہ اور انتخاب عالم کی وکٹیں بھی شامل تھیں جس کے نتیجے میں ان کا نام سابق فاسٹ بولر خان محمد کے ٹیلنٹ ہنٹ سمر کیمپ میں شامل کر لیا گیا تھا۔یہ جون 1984 کی بات ہے۔ لاہور کے اس کیمپ میں رمیز راجہ، اعجاز احمد اور محسن کمال بھی شامل تھے۔ اس کیمپ میں لاہور کے تقریباً سو کرکٹرز شامل تھے اور اس کے کیمپ کمانڈنٹ سابق ٹیسٹ کرکٹر آغا سعادت تھے۔سعود خان کہتے ہیں ’ایک دن وسیم اکرم نے مجھے کہا کہ کیمپ میں مجھے نئی گیند نہیں ملتی۔ میں نے آغا سعادت کو کہا کہ آپ اس نوجوان کو نئی گیند سے بولنگ کا موقع دیں۔ وسیم اکرم کو شاید اسی بات کا انتظار تھا کیونکہ نئی گیند سے ان کی بولنگ کو کھیلنا کسی بھی بیٹسمین کے لیے آسان نہ تھا۔‘وسیم اکرم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے ’آغا سعادت نے میری بولنگ میں بہت دلچسپی لی اور خان محمد سے بات کی جنھوں نے میرے بولنگ ایکشن اور سوئنگ کو بہتر بنانے پر کام کیا۔‘وسیم اکرم کہتے ہیں ’کیمپ کا دوسرا مرحلہ کراچی میں تھا۔ میرے والد نے میرے لیے جہاز کا ٹکٹ خریدا تاکہ میں ٹرین کے سفر کی وجہ سے تھکاوٹ کا شکار نہ ہوں۔ چیف سلیکٹر حسیب احسن ایک دن کیمپ میں آئے اور آغا سعادت اور خان محمد سے میری بولنگ کے بارے میں بات کی۔ کیمپ کے اختتام پر خان محمد میری صلاحیتوں کو دیکھ کر کہہ چکے تھے کہ تم پاکستان کی نمائندگی کر سکتے ہو۔‘وسیم اکرم بتاتے ہیں ’پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی نیوزی لینڈ کی ٹیم کے خلاف راولپنڈی کے سہ روزہ
میچ کے لیے میرا نام شامل ہونا میرے لیے حیران کن بات تھی کیونکہ اس وقت تک میں نے فرسٹ کلاس کرکٹ بھی نہیں کھیلی تھی۔ مجھے یہ بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں گیارہ رکنی ٹیم میں بھی آ سکوں گا یا نہیں؟‘’میچ سے ایک روز پہلے کپتان جاوید میانداد نے مجھے بتایا کہ تم صبح میچ کھیل رہے ہو۔ جاوید میانداد کا مجھ پر اعتماد اچانک نہیں ہوا تھا بلکہ انھوں نے کراچی کے کمیپ میں مجھے بولنگ کرتے دیکھ کر کوچز سے بات کی تھی۔ دراصل میرے سلیکشن میں انہی کا ہاتھ تھا اور اب وہ پنڈی کے سہ روزہ میچ میں مجھے ٹیسٹ بولر طاہر نقاش پر فوقیت دینے کا فیصلہ کر چکے تھے۔‘وسیم اکرم کہتے ہیں ’ایک اٹھارہ سالہ نوجوان کے لیے صرف ایک نیٹ سیشن کی بولنگ کی بنیاد پر ٹیسٹ بولر کی جگہ فرسٹ کلاس میچ کھیلنا حیران کن تھا۔ میں نے ابتدا جان رائٹ کی وکٹ سے کی اور اننگز کا اختتام پچاس رنز کے عوض سات وکٹوں کی کارکردگی پر کیا۔ میں نے دوسری اننگز میں بھی دو کھلاڑی آؤٹ کیے تھے۔‘’میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنا چاہتا تھا لیکن مجھے نہیں لگتا تھا کہ مجھے موقع ملے گا۔ جب پاکستانی ٹیم کے نیوزی لینڈ کے دورے کا وقت آیا تو مجھے ٹیم کے کیمپ میں بلایا گیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب مجھے پتہ چلا کہ جاوید میانداد مجھے نیوزی لینڈ کے دورے کے لیے ٹیم میں دیکھنا چاہتے تھے اور انھوں نے یہ بات چیف سلیکٹر حسیب احسن اور دیگر سلیکٹرز پر واضح کر دی تھی کہ انھیں ہر حال میں وسیم اکرم چاہیے۔‘وسیم اکرم اور وقار
یونس کے بارے میں جان کریس نے اپنی کتاب میں وسیم اکرم کی سادگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب ان کا نام نیوزی لینڈ کے دورے کے لیے ٹیم میں آیا تو انھوں نے کپتان جاوید میانداد کو فون کر کے پوچھا کہ دورے میں انھیں کتنے پیسوں کی ضرورت پڑے گی اور وہ کتنے پیسے اپنے ساتھ رکھیں؟’میانداد نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ پچاس ہزار ڈالرز، وسیم گھبرا گئے۔ انھیں یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کھلاڑیوں کو پیسے دیتا ہے۔‘وسیم اکرم کو آکلینڈ میں ٹیسٹ کیپ ملی لیکن ان کا پہلا ٹیسٹ اس لحاظ سے غیرمتاثر کن رہا کہ وہ ایک سو پانچ رنز دے کر صرف دو وکٹیں حاصل کر سکے تھے۔وسیم اکرم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے ’ڈنیڈن کے موسم اور گرین وکٹ کو دیکھتے ہوئے جاوید میانداد نے چار فاسٹ بولرز کھلانے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ سے مجھے بھی ٹیم میں برقرار رہنے کا موقع مل گیا۔‘اس ٹیسٹ میچ میں وسیم اکرم نے دس وکٹیں حاصل کیں۔ وہ کسی ٹیسٹ میچ میں دس وکٹیں حاصل کرنے والے دنیا کے سب سے کم عمر بولر تھے لیکن وہ ٹیسٹ پاکستانی ٹیم دو وکٹوں سے ہار گئی۔ وسیم اکرم کو آج تک اس بات کا افسوس ہے کہ ان کی بولنگ پاکستان کو کامیابی حاصل نہ کروا سکی اور وہ ٹیل اینڈر چیٹفیلڈ کو آؤٹ نہ کر سکے جنھوں نے جرمی کونی کا ساتھ دیتے ہوئے نیوزی لینڈ کی جیت ممکن بنا دی تھی۔وسیم اکرم کی اپنے آئیڈیل عمران خان سے پہلی ملاقات آسٹریلیا میں اس وقت ہوئی جب عمران خان اپنی پنڈلی کی تکلیف سے صحتیاب ہونے کے بعد دوبارہ ٹیم میں شامل ہوئے تھے۔وسیم اکرم کہتے ہیں ’عمران خان میری طرف آئے اور کہنے لگے ’ویل ڈن تم نے نیوزی لینڈ میں بہت اچھی بولنگ کی۔‘عمران خان کا کہنا تھا کہ وسیم اکرم آسٹریلیا کے ایلن ڈیوڈسن کے بعد سب سے بہترین لیفٹ آرم فاسٹ بولر ہے اور انھیں ایک اچھا بولنگ پارٹنر مل گیا ہے۔وسیم اکرم کا کاؤنٹی کرکٹ شروع کرنے کا واقعہ بھی خاصا دلچسپ ہے۔وہ بتاتے ہیں ’اپریل 1987 میں پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیمیں شارجہ میں موجود تھیں اس دوران لنکا شائر کے بیٹسمین نیل فیئر برادر نے لنکاشائر میں کھیلنے میں میری دلچسپی معلوم کی۔ میں نے ان سے پوچھا آپ کی مراد لنکاشائر لیگ سے ہے؟ وہ بولے نہیں، میں لنکاشائر کاؤنٹی کی بات کر رہا ہوں۔‘وسیم بتاتے ہیں ’میری خوشی کی انتہا نہ تھی۔ چند ہفتوں کے بعد جب پاکستانی ٹیم انگلینڈ کے دورے پر تھی تو میں لنکاشائر کاؤنٹی کے حکام سے ملا۔ پاکستانی ٹیم کے منیجر حسیب احسن نے اس معاہدے کے سلسلے میں میری مدد کی اور یوں لنکاشائر سے میری گیارہ سالہ وابستگی کی ابتدا ہو گئی۔‘(بشکریہ : بی بی سی )