سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللّہ عنہُ کے عہد خلافت کا ایک واقعہ
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّہ عنہُ کے عہد خلافت میں ایک شخص ف-وت ہوا، جب لوگ اس کا نماز جنازہ پڑھنے کےلیے کھڑے ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ اس کے ک-ف-ن کے اندر کوئی
چیز حرکت کررہی ہے۔ جب ک-ف-ن کی گرہ کھولی تو دیکھا کہ ایک س-ان پ ہے، جو اسے ڈ -س رہا ہے۔ لوگوں نے اسے م۔ا-ر-نا چاہا۔ س-ا-ن-پ- نے کلمہ طیبہ پڑھا اور کہا ” اے لوگو! تم مجھے
کیوں م۔ا-ر-ت-ے ہو، حالانکہ میں اپنے آپ نہیں آیا ، بلکہ حق تعالیٰ کےحکم سے آیا ہوں اور اسے ق-ی۔ا-م-ت تک ڈ- س تا رہوں گا۔”لوگوں نے پوچھا: “اے س-ا-ن۔پ ! یہ بتا کہ اس کا ج۔ر-م کیا تھا، جس کی وجہ سے اسے یہ ع-ذ-ا-ب دیاگیا؟” س۔ا-ن۔پ نے کہا:
اس کے تین ج-ر-م تھے :پہلا یہ اذان سن کر مسجد نہیں آیا کرتا تھا۔ دوسرا مال کی زکوٰۃ نہیں ادا کیا کرتا تھا۔ تیسرا علمائے کرام کی بات نہیں سنتا تھا۔ رب تعالیٰ م-ظ-ل-و-م- کی بد دعا فوراً سنتا ہے منقول ہے
کہ جب خالد بن برمک اور اس کے بیٹے کو ق۔ی-د کیاگیا تو بیٹے نے عرض کی: “اے میرے اباجان ، ہم عزت کے بعد ق۔ی-د و ب۔ن-د کی صعوبتوں کا ش۔ک۔ا ر ہوگئے۔ ” تو اس نے جواب دیا: “اے میرے بیٹے ! م-ظ۔ل-و-م کی بد دعا رات کو جاری رہی، لیکن ہم اس سے غافل رہے ، جبکہ خدا اس سے بے خبر نہ تھا۔ ” (کتاب الکبائر المذہبی ص120) حضرت سیدنا ی-ز-ی-د بن حکیم ؒ فرمایا کر تے تھے کہ میں اس سے زیادہ کسی سے نہیں ڈ را، جس پرمیں نے ظ۔ل-م کیا اور میں جانتا ہوں کہ اس کا خدا عزوجل کے سوا کوئی مدد گار نہیں۔ وہ مجھ سے کہتا ہے : ” مجھے خدا ہی کافی ہے ، خدا ہی میرے اور تیرے درمیان (انصاف کرنے والا) ہے”۔ (کتا ب الکبائر المذہبی ص 120)