“رزق میں اگر تنگی ختم نہیں ہور ہی تکلیفیں بڑھتی جار ہی ہیں؟”
حضرت موسی ٰؑ سے ایک غریب آدمی نے درخواست کی کہ آپ کلیم اللہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ میرا رزق بڑھا دے ۔ مجھے کئی کئی وقت فاقے ہوجاتے ہیں۔ حضرت موسیٰؑ نے بارگاہ خداوندی میں اس کی درخواست پیش کی تو بتایا گیا کہ اس آدمی کی قسمت میں قلیل روزی ہے۔ اس لیے ہمارے ہاں سے تھوڑا تھوڑا کرکے اسےروز دیا جاتا ہے۔ تاکہ آخرتک ملتا رہے ،
اس شخص کو جب سے بات معلوم ہوئی تو اس نے درخواست کی کہ آپ اللہ تعالیٰ سے سفارش کر کے میری قسمت کا سارا رزق مجھے ایک بارہی دلوادیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیؑ کی دعا قبول کی اور اس غریب شخص کو تمام زندگی کا رزق ایک ہی بار مل گیا۔ اس شخص نے فوراً لنگر خانہ کھول دیا اور اعلان کردیا۔
جس شخص کے کھانے کا انتظام نہ ہو وہ ہمارے لنگر خانے سے پیٹ بھر کر کھانا کھاسکتے ہیں۔ حضرت موسیؑ کو اس کی حرکت پر تعجب ہوا انہوں نے اسے سمجھانے کی کو شش کی لیکن وہ نہ مانا، توآپ مایوس ہوکر چلے گئے ایک ہفتہ بعدا ن کا ادھر سے گزر ہوا تو دیکھا کہ لنگر خانے میں لنگر ابھی تک جاری ہے۔
دوسری مرتبہ وہ ایک ماہ بعد تو پھر تیسرے مرتبہ چھے ماہ بعد ادھرسے گزرے۔ توآپ نے حسب معمولی اسی طرح لوگوں کو لنگر خانے سے کھانا کھاتے دیکھا، ان کا خیال تھا کہ اس غریب آدمی کی دریا دلی کی بدولت سارا رزق چندرو ز میں ختم ہوجائےگا۔
مگر لنگر خانہ مسلسل ابھی تک جاری تھا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی یا اللہ یہ کیا قصہ ہے ۔ اس کا تھوڑا سا رزق ابھی تک چل رہا ہے۔ جواب آیا :
بے شک اس کی قسمت میں تھوڑا سا ہی رزق تھا۔ جواب تک ختم ہوجانا چاہیےتھا۔ لیکن ہمار ا قانون ہے کہ جو شخص ہماری راہ میں کچھ خرچ کرتا ہے۔ تو ہم اس کا دس گن اہ اس کو دنیا میں اور نوے گن اہ آخرت میں دیتے ہیں۔
یہ شخص بھی اس قانون کے دائرہ سے باہر نہیں ، جتنا یہ ہماری راہ میں خرچ کرتا ہے۔ اس کا دس گن اہ ہم اسے دنیا میں ہی دے دیتے ہیں۔ اس میں تعجب کی کیا بات ہے