اب انکی حکومت آگئی ہے اور مجھے یقین ہے کہ ۔۔۔۔۔ شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات کرنے والے ڈاکٹر رضوان نے انتقال سے 2 روز قبل اوریا مقبول جان کو کیا کہا تھا ؟ جان کر آپ کو حیرانگی ہو گی
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔آج جس شخص ڈاکٹر رضوان کا نوحہ لکھ رہا ہوں وہ اس خوف کی وجہ سے اس دُنیا سے چلا گیا، جو گذشتہ تیس سالوں سے پاکستان میں کام کرنے والے ہر ایماندار اور فرض شناس آفیسر کے سروں پر مسلسل طاری ہے۔
اس خوف کو ایجاد کرنے کا سہرا نواز شریف کے سر جاتا ہے جس نے سب سے پہلے سیف الرحمان کے تحت احتساب بیورو بنایا اور آصف زرداری اور بے نظیر کے خلاف تفتیش کا آغاز کیا۔ اس تفتیش کا ایک کردار سول سروس کا اہم آفیسر مرحوم حسن وسیم افضل تھا، جس نے سوئٹزر لینڈ جا کر تمام حقائق اکٹھے کئے۔ زرداری حکومت نے اسے جس طرح نشانِ عبرت بنایا وہ ایک تاریخ ہے۔ حسن ایک مضبوط اعصاب کا آدمی تھا، سب کچھ سہہ گیا۔ لیکن نواز شریف نے اس شخص کی ساری محنت کو مفادات کی میز پر قربان کرتے ہوئے
’’میثاقِ جمہوریت‘‘ پر دستخط کرتے ہوئے بیچ دیا۔ بے شمار ایسے افسران تھے جو ’’ایماندارانہ احتساب‘‘ کے چکر میں مشرف دَور میں رُسوائی کی علامت بنائے گئے، پوسٹنگ اور پرموشن سے محروم کئے گئے۔ کئی ایسے تھے جو دلبرداشتہ ہو کر پہلے نوکری اور پھر ملک ہی چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ڈاکٹر رضوان کی موت بھی ایک ایسے مسلسل خوف کے عالم کی موت ہے۔ ایک ایماندار آفیسر کے دل میں بہت سے خوف ہوتے ہیں۔
اسے اگر کسی جھوٹے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا، عدالتوں میں گھسیٹا گیا تو کون یقین کرے گا کہ وہ بے گناہ ہے۔ اگر وہ باعزت بری بھی ہو گیا تو اس کے چہرے پر ملی ہوئی کالک کون دھوئے گا۔ وہ اپنی اولاد کا سامنا کیسے کرے گا، جسے وہ رزق ِ حلال کی صعوبتوں میں پالتا رہا ہے۔ میری آنکھوں کے سامنے آج بھی بریگیڈیئر اسد منیر کا معصوم چہرہ گھومتا ہے جس کے خلاف نیب نے تحقیقات کا آغاز کیا
تو اس نے چودہ مارچ 2019ء کو چیف جسٹس سپریم کورٹ کے نام ایک خط تحریر کیا کہ وہ بے قصور ہے، لیکن ایسی بدنامی برداشت نہیں کر سکتا اور پھر اس نے موت کو سینے سے لگا لیا اپنی موت کے دو سال بعد مارچ 2022ء میں اسے باعزت طور پر بری کرتے ہوئے تمام الزامات کو جھوٹ قرار دے دیا۔ لیکن اس شخص کی قبر ہمارے بدترین نظامِ حکومت اور مفلوج نظامِ عدل کا منہ چڑا رہی ہے۔ ڈاکٹر رضوان نے جن دو باپ بیٹوں کے بارے میں منی لانڈرنگ کی تفتیش مکمل کی ہے،
ان میں سے باپ کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران مَیں نے بحیثیت ِصوبائی سیکرٹری سات سال کام کیا ہے۔ ڈاکٹر رضوان بھی ان دنوں کا ہمارا ساتھی تھا۔ ایک مرنجاں مرنج، ایماندار، محنتی اور فرض شناس آفیسر۔ ہمیں معلوم تھا کہ کیسے وزیر اعلیٰ ہائوس سے آفیسران کو علیحدہ علیحدہ بلا کر کبھی خوفزدہ کیا جاتا تھا اور میٹنگوں میں بھی سب کے سامنے ذلیل و رُسوا کیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر رضوان کی شو مئی قسمت کہ اسے انہی باپ بیٹوں کی منی لانڈرنگ کا کیس تفتیش کیلئے ملا۔ اسے عدالت میں بیٹے نے وارننگ دی، پارٹی کے دو وکیل رہنمائوں نے پریس کانفرنس کر کے کہا کہ ہم تمہیں عبرت کا نشان بنا دیں گے۔ وہ حکومت کے آتے ہی طویل رُخصت پر چلا گیا کہ بوجھ کم ہو۔ لیکن ایسے شریف النفس اور ایماندار آدمی کے دل کا خوف کبھی نہیں جاتا۔
وہ معمولی سی بدنامی کو بھی اپنے لئے ہتک سمجھتا ہے۔ موت سے دو دن پہلے بات ہوئی، سخت پریشان تھا۔ کہنے لگا مقدمے کا چالان میں نے بنایا تھا۔ میری گواہی بہت اہم ہے۔ لیکن مجھے کون گواہی دینے کے قابل چھوڑے گا۔ وہ اس دُنیا سے چلا گیا۔ اس دن کی گواہی کے لئے کہ جس دن کے بارے میں اللہ فرماتا ہے۔ ’’ہم آج کے دن ان کے منہ پر مہریں لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پائوں گواہیاں دیں گے‘‘۔ (یٰسین: 65) اگر اس دُنیا میں مکمل انصاف ہونا ہوتا، تو اللہ کبھی روزِ جزا نہ رکھتا۔